ریاستی سختیاں میڈیا کی آزادی سلب کرنے میں ناکام کیوں رہیں گی؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ آزادی اظہارِ رائے دبانے سے ریاست کو فائدہ کم اور نقصان ذیادہ پہنچتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پابندیاں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں کیونکہ یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں، سختیاں نہ پہلے کبھی آزادی سلب کر سکی ہیں اور نہ ہی آئندہ کبھی کر سکیں گی۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی ایک تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب الیکٹرانک میڈیا شروع ہوا تو لوگ ٹی وی کی ہر بات پر یقین کرتے تھے۔ لوگوں نے آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی اور وائس آف امریکہ کو سننا چھوڑ چھاڑ دیا تھا اور ہم اس عروج کو پہنچ گئے تھے کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ، پاکستان کے بارے میں خبریں ہمارے ٹی وی چینلز کے حوالے دے کر نشر کرتے تھے۔ لیکن جب سے میڈیا پر ظاہری اور خفیہ پابندیاں لگی ہیں، لوگوں نے سوشل میڈیا کی طرف توجہ مبذول کر لی ہے چونکہ تاثر یہ ہے کہ ٹی وی یا معروف میڈیا گروپس پابندیوں کا شکار ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا سے پراپیگنڈا پھیل رہا ہے، اور فیک نیوز چلانے کا رواج عام ہو گیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول ریاست کا خیال تو یہ ہے کہ میڈیا پر پابندیاں لگانے سے وہ مضبوط ہو گی اور فیک نیوز پراپیگنڈہ اور اسکے خلاف یونے والی مخالفانہ گفتگو رک جائے گی، لیکن انسانی نفسیات اس سوچ کو رد کرتی ہے، دراصل پابندیاں لگانے سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور ریاست اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، اس سے صوبوں کے درمیان رشتے کمزور ہوتے ہیں، فوج اور عوام میں واسطے ٹوٹنے لگتے ہیں، اور بالآخر حکومتی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ مجھے اس قرآنی آیت پر پکا ایمان ہے کہ سچ آتا ہے تو جھوٹ بھاگ جاتا ہے۔ کیا ریاست کا سچ اتنا ہی کمزور ہے کہ قرآنی حکم کے مطابق جھوٹ کو نہیں بھگا سکتا۔ ریاست اپنے بیانیے کو اس قدر سچا، شفاف اور مضبوط کیوں نہیں بناتی کہ جھوٹے بیانیے اپنی موت خود ہی مر جائیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ریاست اور سرکاری ہرکارے پابندیاں لگانے میں جتنے سرگرم ہیں اگر ان میں سے آدھے سچ کا بیانیہ بھی زور دار طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو مخالفین کا فیک نیوز اور پراپیگنڈا خود ہی بے نقاب ہو جائے گا، مگر افسوس یہ ہے کہ ساری پابندیاں روایتی میڈیا اور بڑے ناموں پر ہی لگ رہی ہیں حالانکہ یہ حکومت کے مخالف یا کسی ریاستی پالیسی کے ناقد تو ہو سکتے ہیں لیکن نہ تو وہ فوج کے خلاف ہیں اور نہ ہی ریاست کے خلاف ہیں۔ سینئیر صحافی کے بقول فیک نیوز ہھیلانے یا جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والوں میں سے اگر کوئی نامعلوم پکڑا بھی گیا ہے تو اس بارے معلومات کسی کو میسر نہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ معروف شاعر اکبر الٰہ آبادی کی شاعری میں بلبل کا ذکر کثرت سے ہے۔ یہ بلبل قدیم ثقافت اور رواج کی علامت تھی، بلبل کی آواز سریلی لطیف اور دل کو لبھانے والی ہوتی ہے جبکہ بینڈ کی آواز بلند کرخت اور جدید زمانے کی سختی کو ظاہر کرتی ہے۔ اقبال نے بھی مادر وطن سے محبت کرنے والوں کو بلبلیں قرار دیا ہے، صوفی شاعر میاں محمد بخش نے فرمایا تھا کہ
قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغاں والی
قدر پھلاں دی گرج کیہہ جانے مردے کھاون والی
سہیل وڑائچ کے بقول اس شعر کا معنی واضح ہے کہ صاف دماغ والی بلبل ہی پھولوں کی قدر جان سکتی ہے چیل جو مردے کھاتی ہے اسے پھولوں کی کیا قدر ہو سکتی ہے۔ اگر آج کے میڈیا پر اس کا اطلاق کیا جائے تو سچ بولنے والے دراصل بلبلیں ہیں جبکہ فیک نیوز اور پراپیگنڈا کرنے والے چیلیں ہیں۔ پھول دراصل ملک ہے جو ریاست کے ہر باشندے کا محبوب ہوتا ہے، ہر بلبل کا اپنے محبوب پھول کو سنوارنے کا ایک الگ زاویہ ہے بعض اوقات باشندے پھول کے بارے میں تلخ بھی ہو جاتے ہیں، اختلاف بھی کر جاتے ہیں، مگر ان سب متضاد زاویوں میں ان کے دل کے اندر پھول سے محبت ہی موجزن ہوتی ہے، پھول کی تعریف کرنے والے یا اس کی اصلاح کی خواہش کرنے والے دونوں ہی بلبلیں ہیں، جبکہ چیلیں جھوٹ پھیلانے والے، ریاست کو کمزور کرنے والے اور اسے گرانے کی کوشش کرنے والے لوگ ہیں۔
لہٰذا سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ خدارا بلبلوں کو تو چہچہانے سے نہ روکو، چیلیں تو آپ کے قابو اور بس سے باہر ہیں، لہٰذا عتاب بلبلوں پر گر رہا ہے حالانکہ بلبلیں ہی تو پھول ریاست اور چاند عوام کی ہدی خواں ہوتی ہیں، اگر بلبلیں بھی اڑ گئیں تو چمن، پھول اور تتلیوں کا کیا بنے گا؟
حقانیہ پر حملہ : افغان طالبان کی حامی شخصیات ہی ٹارگٹ کیوں؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مجھ عاجز کو یقین ہے کہ میری نحیف آواز کوئی نہیں سنے گا، مگر لوگوں کا منہ بند کرنے سے کانوں میں آنے والا شور بند نہیں ہوتا۔ شور کا جواب صرف سچ اور سچ میں ہے۔ پابندیاں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں، سختیاں نہ پہلے کبھی آزادی سلب کر سکی ہیں اور نہ ہی آئندہ کبھی کر سکیں گی۔ میڈیا پر پابندیاں لگانے سے وقتی طور پر مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر دائمی طور پر اس کو معمول پر لانے کیلئے آزادی دینا پڑے گی۔ روایتی ٹی وی اور اخباری میڈیا پر بے جا پابندیاں ان کے سچ کو بھی بے اثر کر رہی ہیں اور سوشل میڈیا کی فیک نیوز کے بارے میں ریاستی بے بسی ان کو اور طاقتور کر رہی ہے، اگر روایتی میڈیا کو مکمل سچ بولنے کا حق مل جائے تو چیلیں بھی بلبلوں کی سریلی آواز کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔