تحریک انصاف کا قبضہ بشری بی بی کو ملے گا یا علیمہ خان کو؟

بھٹو اور شریف خاندان کی موروثی سیاست کے ناقد عمران خان کی تحریک انصاف بھی بالآخر ایک موروثی جماعت بن گئی ہے جہاں ان کی اہلیہ بشری بی بی اور بہن علیمہ خان کے مابین پی ٹی آئی پر قبضے کی جنگ تیز تر ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران کی قید لمبی ہو جانے کے بعد اب تحریک انصاف قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ ان کے مطابق یہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے امتحان کا وقت ہے۔ موروثی سیاست کی ناقد تحریک انصاف لاکھ وراثتی سیاست سے انکار کرے لیکن سچ یہی ہے کہ آج بھی پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی میں چئیرمین بیرسٹر گوہر خان سے زیادہ بشری بی بی اور علیمہ خان کا حکم چلتا ہے۔
تحریک انصاف نے اگر عوامی اور احتجاجی سیاست کر کے کامیاب ہونا ہے تو اس کےلیے خاندان کی عورتوں کا آگے آنا لازم ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ویسے تو علیمہ خان اپنے بھائی عمران خان کی زنانہ کاپی ہیں مگر بشریٰ بی بی فی الحال ان سے اسٹیٹس میں کئی درجے اوپر ہیں۔ علیمہ خان اپنے بھائی کے ساتھ شوکت خانم اسپتال کی تعمیر، نمل یونیورسٹی کے آغاز اور پھر تحریک نصاف کے پس منظر میں ہر جگہ شریک رہی ہیں مگر بشریٰ بی بی سے شادی کے بعد عمران خان جتنی عزت اپنی مرشد اہلیہ کی کرتے ہیں، وہ مقام کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہے۔
بشریٰ بی بی کو کوئی جادو گر کہے یا پیرنی مگر عمران خان کے دل کے تخت پر آج بھی وہی براجمان ہیں کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے شوہر کو ملک کا اگلا وزیراعظم بننے کی نوید سنائی تھی۔
سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ کے روحانی ویژن، ان کی عبادات، نیک اطوار اور ان کے سیاسی تجزیات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ان کے مطابق علیمہ خان کو تو عمران ڈانٹ بھی لیتے ہیں، ان سے ناراض بھی ہوجاتے ہیں مگر بشریٰ بی بی کی وہ ہمیشہ تعریف ہی کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر بشریٰ بی بی سیاسی میدان میں باقاعدہ اتار دی گئیں تو انہیں ان کے شوہر کی مکمل تائید حاصل ہو گی۔
دوسری طرف خدانخواستہ بانی پی ٹی آئی کو کچھ ہوا یا وہ سیاست سے باہر ہوئے تو پھر علیمہ خان کا کوئی بھی مقابل، بشمول بشری بی بی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
علیمہ بھی عمران خان کی طرح تندو تیز اور جارحانہ لہجے کی حامل ہیں، ماضی قریب میں ڈی چوک میں احتجاج کی کال ناکام ہونے کے بعد انہوں نے علی امین گنڈاپور اور دوسرے پارٹی عہدیداروں کو اڑا دیا تھا لہٰذا اگر عمران کو کچھ ہو گیا اور تحریک انصاف علیمہ کے ہاتھ لگ گئی تو وہ جب چاہیں گی توپوں کے منہ کھول کر سب کو اڑا دیا کریں گی۔
سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت بالاخر بشری بی بی کو ملے گی یا علیمہ خان کو، یہ جاننے کے لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا کیونکہ یہ معاملہ تو ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ نند اور بھابی کی ذرا بھی نہیں بنتی بلکہ وہ دونوں تو ایک دوسرے کو برداشت تک نہیں کرتیں۔ ایسے میں عمران خان کا وزن جس کے ساتھ ہوگا وہی طاقتور ہوگا۔
فیض حمید کا کورٹ مارشل ٹرائل مارچ تک مکمل ہو جانے کا امکان
یاد رہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا پورا نام بشریٰ ریاض وٹو ہے جو اپنی پہلی شادی کے بعد بشری خاور مانیکا بن گئی تھیں تاہم بعدازاں انہوں نے اپنے سابقہ شوہر خاور مانیکا سے طلاق لی اور 2018 میں ان کی شادی عمران خان سے ہوئی۔ بشریٰ بی بی کی پہلی شادی پاکپتن کے ایک مشہور سیاسی خاندان میں ہوئی تھی جب کہ بشریٰ بی بی کے والد میاں ریاض وٹو ضلع پاکپتن کے ایک معروف زمیندار تھے۔
بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور فرید مانیکا سابق بیوروکریٹ ہیں اور انہوں نے وفاقی حکومت کے کسٹم ڈپارٹمنٹ میں خدمات سرانجام دیں۔ جب کہ ان کے سابقہ سسر غلام محمد احمد مانیکا مشہور سیاستدان تھے اور وہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی رہے۔ میاں غلام محمد احمد مانیکا کے والد میاں نور مانیکا بھی پاکستان بننے سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہے تھے۔
پاکپتن کی سیاست میں بھی بشریٰ بی بی کے دو سابق دیور سابق ایم این اے احمد رضا مانیکا اور فاروق مانیکا قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار ہیں جب کہ بشریٰ بی بی کے داماد میاں حیات مانیکا حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد اب صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں ناکام رہے تھے۔