عمران خان گنڈاپور کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا علیمہ خان کے؟

وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کو ملٹری انٹیلیجنس کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے جو ایک ویڈیو میں جو الزامات لگائے ہیں ان میں سب سے سنگین یہ ہے کہ علیمہ خان کے بیٹے 9 مئی کے فسادات کے موقع پر موجود تھے لیکن انہیں گرفتاری کے تین دن بعد ہی ضمانتیں مل گئیں، تاہم عمر ایوب خان سمیت باقی ورکرز جو موقع پر موجود بھی نہیں تھے ان کو فوجی عدالتوں نے دس دس برس قید با مشقت کی سزائیں سنا دیں۔
علی امین گنڈاپور کی یہ ویڈیو 30 ستمبر کی رات جاری کی گئی۔ اس ویڈیو سے پہلے 29 ستمبر کو انہوں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی اور انہیں علیمہ خان کی جانب سے ’پارٹی کو تقسیم‘ کرنے کی سازشوں سے آگاہ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ علیمہ کے خلاف علی امین کے الزامات سامنے آنے سے قبل 30 ستمبر کو اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے علیمہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ علی امین نے میرے بارے میں عمران خان کو بتایا ہے کہ میں ایم آئی کے لیے کام کر رہی ہوں۔
گنڈاپور اور علیمہ خان کے ایک دوسرے پر الزام اپ کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ گنڈاپور نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ملٹری انٹیلی جنس علیمہ خان کی سہولت کاری کر رہی ہے۔ انکے مطابق علیمہ کی وجہ سے ہم متحد ہونے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کا مقصد پورا کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری 12 منٹ طویل ویڈیو میں گنڈاپور نے کہا کہ میں نے جیل میں ملاقات کے دوران عمران کو شکایت نہیں لگائی بلکہ پارٹی کی خاطر علیمہ خان کے بارے سب سچ بتا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کو بتایا کہ پہلے بجٹ کے معاملے پر وی لاگرز کے ذریعے مجھے اور دیگر کابینہ اراکین کو غدار بنانے کی ناکام کوشش کی گئی جس کے بعد لاہور میں منعقدہ پارٹی اجلاس کے دوران بھی ایسا ہی کیا گیا۔
گنڈاپور نے ویڈیو میں کہا کہ ’میں نے عمران خان کو بتایا ہے کہ علیمہ کی وجہ سے پارٹی تقسیم ہے اور ان کی رہائی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں، جبکہ علیمہ خان میرے خلاف باقاعدہ جھوٹی پروپگینڈا مہم چلا رہی ہیں۔ ادھر پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ علیمہ خان ہی ہیں جو پارٹی کا بیانیہ آگے پہنچا رہی ہیں اور ان کی آواز کو لوگ عمران کی آواز سمجھتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کے مطابق ’دو سال سے پارٹی چیئرمین ہوں اور اس دوران کبھی عمران کی بہنوں نے پارٹی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ عمران خان کی بہنوں کو کسی ایجنسی کی حمایت حاصل ہو۔
تحریک انصاف میں اختلافات کی قیاس آرائیاں اور خبریں تو طویل عرصے سامنے آتی رہی ہیں تاہم یہ چیزیں کھل کر پشاور میں 27 ستمبر کو ہونے والے جلسے میں دکھائی دیں۔
پشاور جلسے کے دوران علی امین گنڈاپور جب تقریر کے لیے سٹیج پر آئے تو کارکنان کی جانب سے ہلڑ بازی کی گئی اور ان کے خلاف نعرہ بازی بھی ہوئی۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی پشاور کے صدر عرفان سلیم کی سربراہی میں جلسے کے بعد ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا اور جلسے میں ناقص انتظامات اور دیگر امور پر بات بھی کی گئی تھی۔ عرفان سلیم نے جلسے کے بعد ایکس پر لکھا تھا کہ ’محترم وزیر اعلیٰ صاحب آج جو کچھ بھی جلسے میں آپ کے ساتھ ہوا یہ جمہور کی آواز ہے۔ اس کو سنیے اور سوچیے کیونکہ یہ عوام آپ سے عمران خان کی ایسٹبلشڈ پالیسی اور بیانیے کی حقیقی ترجمانی اور عمل چاہتی ہے۔‘ انہوں نے لکھا ہے کہ ’میں نے 15 ستمبر کو ہی آپ کے سامنے چند گزارشات رکھی تھیں اور آپ ان پر عمل کیجیے اور پھر اسی گراؤنڈ میں دوبارہ جلسہ رکھیے، آپ آج کے جلسے کا الٹ دیکھیں گے۔‘
علی امین گنڈاپور کی جانب سے علیمہ خان پر لگائے گئے الزامات پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اور پارٹی مینجمنٹ سیل کے سربراہ ارباب شیر علی نے کہتے ہیں کہ ’عوام عمران خان کو دیکھتی ہے اور عمران خان پر عوام کا اعتماد بحال ہے۔ جہاں تک علیمہ خان کا تعلق ہے تو انہوں نے ہمیشہ اپنے بھائی عمران کی رہائی کی بات کی ہے اور پارٹی معاملات سے خود کو دور رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے بھائی کے لیے آواز اٹھانا علیمہ خان کا حق ہے۔ بعض اوقات ان کا لہجہ بھی سخت ہوتا ہے لیکن وہ پارٹی کو یہی کہتی ہیں کہ آپکا چیئرمین جیل میں ہے تو ان کی رہائی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
ادھر گنڈاپور کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اب بھی ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد کپتان نے خیبر پختون خواہ کابینہ کے دو اہم وزرا سے استعفے لے لیے کیونکہ وہ گنڈاپور کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان گنڈکپور جیسے کو ناراض کرنےنکا رسک نہیں لے سکتے ورنہ خیبر پختون خان میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔
