کیا پرویز خٹک KP میں PTI کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب ہوں گے؟

اسٹیبلشمنٹ نے خیبرپختونخوا میں عمران خان کو اپنے ہی مہروں سے شکست فاش دینے کی نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مقتدر قوتوں کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سابق وزیر دفاع اور عمران خان کے سابق قریبی ساتھی پرویز خٹک ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ پرویز خٹک نے کسی بھی جماعت میں فوری شمولیت اختیار کرنے کی بجائے سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے 22 فروری کو مشاورتی جلسے کا اعلان کر دیا ہے۔ مبصرین  کے مطابق پرویز خٹک کو سیاسی جوڑ توڑ کا گرو مانا جاتا ہے ان کے خیبرپختونخوا میں متحرک ہونے کے بعد خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ میں مزید تیزی دکھائی دے گی اور پارٹی مزید چھوٹے چھوٹے دھڑوں اور گروپوں میں بٹ جائے گی جس سے وفاقی حکومت کیلئے گنڈاپور سرکار کو قابو کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق علی امین گنڈا پور سے صدارت واپس لے کر جنید اکبر خان کو پارٹی کی قیادت سونپنے کے بعد پہلے ہی پی ٹی آئی داخلی اختلافات اور انتشار کا شکار ہے، جبکہ اب پرویز خٹک کے سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کے بعد  پی ٹی آئی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے سیاست میں واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 22 فروری کو اپنے آبائی گاؤں مانکی شریف میں مشاورتی جلسہ کریں گے۔ جس میں ان کے بھائی لیاقت خٹک سمیت خاندان کے دیگر افراد بھی شریک ہوں گے۔خاندانی ذرائع کے مطابق پرویز خٹک اور ان کے بھائی کے درمیان تعلقات خراب تھے مگر دونوں میں صلح کے بعد اب دونوں بھائیوں میں معاملات بہتر ہو گئے ہیں۔

پرویز خٹک کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک صلح کے بعد پرویز خٹک کی سرپرستی میں کام کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ جس سے پرویز خٹک کی سیاسی طاقت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔  ذرائع نے مزید بتایا کہ پرویز خٹک سیاست سے دوری کے اعلان کے بعد خاندانی معاملات کو درست کرنے میں مصروف تھے اور آخر کار بھائی کو منانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب دونوں بھائیوں نے سیاسی محاذ پر اتفاق رائے سے مل کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرویز خٹک کسی جماعت میں شامل ہونے والے ہیں یا اپنی کوئی نئی سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں؟ کیونکہ ماضی قریب میں افواہیں گرم تھیں کہ پرویز خٹک نون لیگ میں شامل ہونے والے ہیں۔پرویز خٹک کے قریبی ساتھیوں کے مطابق پرویز خٹک کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شمولیت کی پیشکش کی گئی ہے، تاہم انہوں نے فوری کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق پرویز خٹک نہ تو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور نہ ہی وہ کوئی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔‘ ’22 فروری کو ہونے والے جلسے میں بھی پرویز خٹک کے دوست احباب کے علاوہ کسی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔‘ ذرائع کے مطابق پرویز خٹک اور ان کے بھائی مل کر جلسہ کر رہے ہیں جس کا مقصد خاندان اور علاقے کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر دوبارہ جمع کرنا ہے۔پرویزخٹک اور ان کے بھائی نے جلسہ کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے، تاہم اسے غیر سیاسی سرگرمی قرار دیا جا رہا ہے۔

مقامی مبصرین کے مطابق پرویزخٹک کے جلسے کو فیملی گیدرنگ کا نام دیا گیا ہے۔‘اسی لئے ’22 فروری کو کسی کو شمولیت کی دعوت نہیں نہیں دی گئی ہے، گیدرنگ میں صرف حلقے کے تمام مشران اور قوم کو دعوت دی گئی ہے تاکہ اتفاق و اتحاد کا پیغام جاسکے۔‘تجزیہ کاروں کے مطابق’کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طریقے سے پرویز خٹک کو وفاق کی جانب سے سپورٹ مہیا ہو جائے، پرویز خٹک کو عہدہ دینے کے بارے میں بھی بات چیت ہو رہی ہے تاکہ صوبے میں پی ٹی آئی کو دبایا جاسکے۔‘مبصرین کے مطابق مقتدر قوتیں سمجھتی ہیں کہ ’پی ٹی آئی کو دبانے کے لیے پرویز خٹک کا سیاسی طور پر متحرک ہونا ضروری ہے۔ پرویز خٹک سے اسی حوالے سے بات چیت ہورہی ہے اور کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ پرویز خٹک کی ناراضی دورکی جاسکے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ’8 فروری کے انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک کے اسٹیبلشمنٹ سے گلے شکوے پیدا ہوگئے تھے جو اب انہیں سیاسی سپیس دے کر دور کیے جا رہے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’پرویز خٹک نے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ انہیں کس جماعت کے ساتھ چلنا ہے یا پھر وہ آزاد حیثیت سے سیاست کریں گے، آنے والے کچھ دنوں میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔‘

دوسری طرف بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک اب صوبے کے سیاسی منظر نامے سے باہر ہیں اور ان کیلئے اب صوبے کی سیاست میں جگہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق پرویز خٹک پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی کامیاب تھے اور نئی جماعت بنانے کے بعد انھیں اس کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا عام انتخابات سے پہلے پرویز خٹک کا پورا خاندان اقتدار میں تھا تاہم پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد وہ خود ایم این اے تک نہ رہے۔ مبصرین کے مطابق‘پرویز خٹک حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں، جب ضرورت ہو گی انھیں سامنے لایا جائے گا اور جب ضرورت نہیں ہوگی تو وہ منظرعام سے غائب رہیں گے۔ وہ اس کھیل کے کھلاڑی ہیں۔’ان کے مطابق پرویز خٹک کے ذریعے صوبے میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینا شاید مشکل ہے۔ تاہم اگر پرویز خٹک ڈلیور کرنے اور پی ٹی آئی کو صوبے میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو گنڈاپور سرکار کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ تاہم  اب دیکھنا ہے کہ پرویز خٹک گنڈاپور حکومت کا زہر نکالنے کیلئے کون سا کلیہ اپناتے ہیں۔

Back to top button