کیانئی نہریں شہبازحکومت کوبھی ساتھ ہی بہاکرلےجائیں گی؟

دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کا معاملہ دو بڑی حکومتی اتحادی جماعتوں کے مابین وجہ تنازع بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے نہری منصوبہ ختم کرنے تک حکومت کے ساتھ قانون سازی سمیت کسی بھی حوالے سے تعاون نہ کرنے کا غیر اعلانیہ فیصلہ کر لیا ہے۔ جس نے جہاں وفاقی حکومت کو ایک نئے بحران میں مبتلا کر دیا ہے وہیں شہباز حکومت کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ نئی نہروں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں اختلافات ضرور ہیں لیکن اس منصوبے سے شہباز حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ شہباز حکومت 5 سال پورے کرے گی۔ جلد یا بدیر نئی نہروں کی تعمیر کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہ منصوبہ کسی بڑے بحران کی بنیاد نہیں بنے گا۔

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق نہروں کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات میں شدت آنے کے بعد معاملات جلسوں اور پریس کانفرنس سے بڑھ کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں، جہاں ایک طرف حکومت نے قومی اسمبلی میں نئی نہروں کے تعمیر بارے اصل صورتحال ایوان میں پیش کر دی ہے وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی نے نہروں کی تعمیر کی سخت مخالفت کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی کارروائی کو عملی طور پر غیرفعال بنا دیا ہے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے ایوان میں عدم تعاون کے باعث پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس قبل ازوقت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے اجلاس سے پہلے ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اجلاس 18 اپریل تک جاری رہے گا، تاہم پیپلز پارٹی کی ایوان سے مکمل غیرحاضری اور مسلسل کورم کی نشاندہی کی وجہ سے کسی ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ایجنڈے کے مطابق نہیں چل سکی۔ جس میں اپوزیشن جماعتوں نے خاموشی سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔تقریباً پانچ دن جاری رہنے والے اجلاس میں چار دن کورم کی نشاندہی کی گئی اور ہر بار کورم نامکمل رہا۔

واضح رہے کہ دریائے سندھ پر نہروں کے منصوبے کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اس وقت شدید کشیدگی جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے بارہا تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے باوجود پیپلز پارٹی اس وقت تک حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار نہیں جب تک منصوبے کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

مبصرین کے مطابق نئے نہری نظام پر تحفظات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان تعلقات میں اس وقت مزید کشیدگی پیدا ہوئی، جب پیپلز پارٹی نے پارلیمان میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور قانون سازی میں کسی بھی قسم کی حمایت نہ کرنے کا غیراعلانیہ فیصلہ کیا۔

ذرائع کے مطابق ’بلاول بھٹو زرداری نے بیرون ملک روانگی سے قبل پارلیمان میں حکومتی معاملات اور کارروائی سے لاتعلقی کی منظوری دی۔ پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف حکومتی بلوں کی حمایت نہیں کی جائے گی بلکہ آرڈیننس کی منظوری اور توسیع میں بھی تعاون نہیں کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کو اس فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ بھی کر دیا ہے۔‘

’پارٹی نے قومی اسمبلی میں خاموش احتجاج جاری رکھنے اور نہروں سے متعلق قرارداد ایجنڈے پر لانے تک کورم پر بھی تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت پیپلز پارٹی کے ایم این ایز محدود تعداد میں اسمبلی اجلاسوں میں شریک ہوئے اور کورم کی نشاندہی پر ایوان سے باہر چلے گئے۔‘ جس کی وجہ سے حکومت کیلئے کورم پورا کرنا ایک چیلنج بنا رہا۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے نئی نہروں کے منصوبے بارے پیپلز پارٹی کو منانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے ہونے والی ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جان سے نئے نہری منصوبے میں حمایت کے بدلے پیپلز پارٹی کو ترقیاتی فنڈز، سکھر موٹروے کی فنڈنگ، اور پی ایس ڈی پی میں منصوبوں کی شمولیت جیسے پُرکشش پیکجز کی پیشکشیں بھی کی گئیں، لیکن پیپلز پارٹی نے ان تمام پیشکشوں کو مسترد کر دیا ہے۔

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ ’حکومت نہروں کے معاملے پر پیچھے ہٹ رہی ہے اور کسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے قاصر ہے۔ نہروں کا منصوبہ ہر صورت ختم کرنا ہو گا کیونکہ یہ نہریں نہیں بنیں گی۔ ہم سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا واحد مطالبہ نہری منصوبے کا فیصلہ واپس لینا ہے، جس سے وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پارٹی نے واضح کیا ہے کہ ان کا جینا مرنا دریائے سندھ کے ساتھ ہے، اور اگر حکومت نے مجبور کیا تو فیصلے سڑکوں پر عوام کے ساتھ کیے جائیں گے۔

ادھر حکومتی رہنما پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے منظر عام سے غائب ہونے کے باعث دوسرے درجے کی قیادت کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ صدر آصف علی زرداری طبعیت کی خرابی کے باعث کراچی میں مقیم ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری پہلے بیرون ملک میں تھے اور اب وہ اسلام آباد یا کم از کم پارلیمنٹ کا رخ نہیں کر رہے، جس کے باعث حکومت کو پیپلز پارٹی سے رابطے اور فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق سپیکر ایاز صادق کی جانب سے بھی کوشش کی گئی کہ پیپلز پارٹی کو قائل کیا جا سکے، تاہم فوری طور پر انہیں بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ نہروں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہے۔اس حوالے سے وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نہروں کے معاملے پر وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ کو مذاکرات کی دعوت دی جا چکی ہے۔ سندھ کے حق کا ایک قطرہ بھی کسی دوسرے صوبے کو نہیں دیا جائے گا۔ مل بیٹھ کر نہری معاملہ حل کریں گے۔ حکومت اپنے اتحادیوں کے تمام اعتراضات دور کرے گی۔

Back to top button