کیا مسلم لیگ نون نئے صوبوں کے قیام پر راضی ہو جائے گی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ اس بار نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پر جس زور و شور سے بحث جاری ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید پنجاب ایسا کرنے پر راضی ہو جائے کیونکہ پیپلز پارٹی بھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حق میں ہے اور نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں بھی پنجاب اسمبلی کی نونی اکثریت اس تجویز کی ’اصولی‘ حمایت کر چکی ہے۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ والد مرحوم یہ کہاوت اکثر سناتے تھے کہ کوئی یہ کہے کہ تمہارے کان کتا لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے کان چھو کے دیکھ لو۔ ہر کچھ عرصے بعد سنتے سنتے کان پک گئے کہ وفاق کو اگر مؤثر انداز میں چلانا ہے تو نئے صوبے بنانے پڑیں گے۔ یہ شوشہ اڑتے ہی دلائل و ردِ دلائل کا بازار کھل جاتا ہے۔ وہ جماعتیں، تھکے ہوئے سیاست دان اور تھنک ٹینک بھی شعلہ بار منجن چھابے میں رکھ لیتے ہیں جن کی عام دنوں میں گھر والے بھی نہیں سنتے۔ چونکہ عوام بھی 78 برس کے دوران ہر طرح کی دو نمبریوں کے طرح طرح سے ڈسے ہوئے ہیں اس لیے وہ بھی مجمع کی صورت مداریوں کی باتیں اس امید پر دھیان سے سنتے ہیں کہ اس بار پٹاری سے واقعی کوئی ایسا سنگ چور ناگ نکل آئے جو پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام کے قیاسی کتے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے اگر کوئی آئین کا آرٹیکل 239 پڑھ لے تو شاید خامخواہ ہانپنے سے بچ جائے۔ اس آرٹیکل میں صاف صاف لکھا ہے کہ کسی بھی صوبے کی جغرافیائی حدود میں کمی بیشی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی الگ الگ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کریں گے۔ یہ مسودہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے پاس کرے گی۔ اس کے بعد ہی صدرِ مملکت اس ترمیم پر دستخط کے مجاز ہوں گے۔آرٹیکل 239 کی مذکورہ شق اب تک ایک بار یعنی 2018 میں ہی استعمال ہوئی جب قبائلی اضلاع کا 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا میں ادغام ہوا۔ گویا آئینی طور پر صوبوں کی حدود میں ردوبدل اتنا آسان نہیں۔

تاہم وسعت اللہ خان کے مطابق ہو سکتا ہے پنجاب آسانی سے خود کو دو یا تین صوبوں میں بدلنے پر مان جائے کیونکہ مرکز میں بھی مسلم لیگ نون ہے اور پنجاب اسمبلی میں بھی اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ نونی قیادت اور طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین گاڑھی بھی چھن رہی ہے۔ دونوں کو اس وقت ایک دوسرے کی سخت ضرورت بھی ہے۔ ویسے بھی نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں پنجاب اسمبلی کی نونی اکثریت اس تجویز کی ’اصولی‘ حمایت کر چکی ہے۔

لیکن اہم ترین سوال یہ یے کہ کیا بلوچستان کو پختون اور بلوچ اکثریتی صوبوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ بلوچوں کو تاریخی طور پر بلوچستان کی پشتون پٹی کے علیحدہ تشخص پر سنگین تحفظات کبھی بھی نہیں رہے کیونکہ یہ پٹی انگریز دور میں بھی کوئٹہ میونسپل انتظام کے تحت ریاست قلات کی حدود سے باہر تھی۔ مگر آج بلوچستان میں قوم پرستی کے جذبات جس سطح پر ہیں اور افغانستان و ایران سے پاکستان کے تعلقات جتنے حساس ہیں، آیا اس ماحول میں بلوچستان کو دو صوبوں میں بانٹنے کی خواہش کو آسانی سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ یہ خواہش پیٹرول سے آگ بجھانے کی کوشش میں بھی تو بدل سکتی ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کو فی الحال خاص پذیرائی حاصل نہیں۔ ویسے بھی ہندکو اور پشتو اس خطے کی مشترکہ تاریخی ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہری پور، ایبٹ آباد یا مانسہرہ کا رہائشی جتنا خود کو راولپنڈی کے قریب محسوس کرتا ہے اتنی ہی قربت پشاور سے بھی قربت محسوس کرتا ہے۔ لیکن ہزارہ میں آبادی کا ایک حصہ پشتون ہے ہندکو بولتا ہے۔ البتہ سیاسی اعتبار سے ہزارہ ڈویژن کا روایتی جھکاؤ پشتون قوم پرست تحریکوں کے بجائے وفاقی قومی دھارے کی جانب رہا ہے۔ اہلِ ہزارہ بھلے علیحدہ صوبے کی تجویز کا خیر مقدم کریں مگر صوبے کی پشتو اکثریت میں سوائے مسلم لیگ نون کے حامیوں کے پی ٹی آئی اور اے این پی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت امن و امان اور عدم استحکام کی موجودہ فضا میں اس تجویز کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے گی۔

وسعت اللہ خان کے بقول اگر سندھ 1947 تک بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ رہتا تو شاید پاکستان ہی نہ بنتا کیونکہ سندھ اسمبلی نے ہی سب سے پہلے پاکستان میں شمولیت کی قرارداد اپنائی تھی۔ تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں بسی اور مشترکہ زبان اور رہن سہن کے سبب انھیں نئی جگہ اپنانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔مشرقی پاکستان میں مغربی بنگال کے بنگالی بولنے والے اور بہار کے اردو بولنے والے مسلمان نقل مکانی کر کے پہنچے مگر دیگر ہندوستانی صوبوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت نے سندھ کے شہروں کا انتخاب کیا جہاں سے ہندو آبادی بھاری تعداد میں سرحد پار جا رہی تھی۔

مریم کا دورہ جاپان پنجاب کی عوام کو کتنے کروڑ میں پڑا ؟

 

تقسیم کے بعد سندھ کا سب سے بڑا شہر کراچی وفاقی دارلحکومت قرار پایا۔ اس اقدام سے سندھ میں پیدا ہونے والی بدزنی کے ازالے کے لیے نوزائید مرکزی حکومت نے تشفی بخش اقدامات نہیں کیے۔ 1955 میں مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو برابری کے جبری اصول کی بنیاد پر کم کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے صوبوں کے حلق پر جس طرح ون یونٹ سکیم کا انگوٹھا رکھ کے صوبائی تشخص ختم کیا گیا اسے بھی سب سے زیادہ سندھ نے محسوس کیا۔ 15 برس بعد صوبوں کا تشخص تو بحال ہو گیا مگر 1972 کے لسانی فسادات نے نئے اور پرانے سندھیوں کے مابین بدزنی کی گہری دراڑ ڈال دی۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سندھ میں نئے صوبے بنانے کی راہ میں ایک بڑی جذباتی رکاوٹ یہ ہے کہ سندھ اگرچہ آج صوبہ ہے مگر اپنی موجودہ جغرافیائی حدود میں یہ 19ویں صدی تک ایک خودمختار ریاست تھا۔ چنانچہ اہلِ سندھ کے نزدیک یہ محض انتظامی یونٹ نہیں بلکہ وطن ہے اور وطن کا تصور ماں جیسا ہے۔ اسی وجہ سے سندھ دیش کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔

Back to top button