پی ٹی آئی قیادت کا مزاحمت کی بجائے حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ

سیاسی کمیٹی کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے بھی بغاوت کر دی۔ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مزاحمتی سیاست کے برعکس حکومت سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کے بعد تحریک انصاف کا ٹوٹنا یقینی ہو گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی میں پیدا ہونے والا حالیہ بحران نہ صرف عمران خان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے بلکہ اگر یہ پارٹی اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کو موجودہ شکل میں برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا اور یہ جماعت اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہو کر اپنی طاقت کھو بیٹھے گی۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کی منظوری کے بغیرپی ٹی آئی رہنما ایک بار پھرحکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیےمتحرک ہوگئے ہیں اورانھوں نے عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی کے برعکس بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے مذاکراتی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی پارلیمنٹیرئنز کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے بعد آئندہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے باقاعدہ آغاز کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنماؤں نے اندر کھاتے حکومتی نمائندوں سے رابطہ قائم کر لیا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی عمل بارے پیشرفت کے بعد مذاکرات کے لیے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، رانا ثنا اللہ، نوید قمر اور راجا پرویز اشرف سے بات چیت کا امکان ہے کیونکہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف بھی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیش کش کر چکے ہیں۔
اس حوالے سے مذاکراتی عمل کیلئے کوشاں پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی طریقے سے ہی نکالا جاتا ہے، ہماری پارٹی میں چند ایسے لوگ ہیں جو خان کو واضح صورت حال سے آگاہ نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں تاہم اب ہم نے خاموشی کے ساتھ حکومت سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ خان صاحب کی رہائی کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، استعفیٰ دینے سے یا اپنی جگہ خالی چھوڑنے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا، اسی لئے پی ٹی آئی کے ہم خیال اراکین نے مل کر حکومت سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے حکومتی اراکین سے سنجیدہ مذاکرات ہونے بہت ضروری ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت کےساتھ تحریک انصاف کے ابتدائی رابطےنتیجہ خیز رہے ہیں جس کے بعد امکان ہے کہ حکمران اتحاد اور سنی اتحاد کونسل پر مشتمل تحریک انصاف کا پارلیمانی گروپ آئندہ ہفتے مذاکرات کے لئے آمادہ ہوسکتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس مذاکراتی عمل میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی تائید یا اجازت شامل نہیں ہوگی تاہم مذاکرات کے ایجنڈے میں اڈیالہ کے اسیر عمران خان کی رہائی شامل ہوگی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق جنہوں نے حکومت کے ساتھ تحریک انصاف اور حزب اختلاف کے دوسرے پارلیمانی گروپس کے درمیان مذاکرات کی نظامت کی تھی اس مرتبہ بھی وہ مذاکراتی عمل کا محور ہونگے توقع ہے کہ حکومتی اتحاد کی طرف سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، رانا ثناء اللہ خان اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ مذاکرات کار ہوسکتے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل بیرسٹر گوہر علی خان، انجینئر علی محمد اور چیف وھپ ملک عامر ڈوگر کے ذریعے مذاکراتی عمل میں حصہ لے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہاگلے ہفتے قومی اسمبلی کااجلاس شروع ہونے کے فوری بعد مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے لئے سنجیدہ پیش رفت ہوگی۔

 

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت عمران خان کی گرفتاری، نااہلی اور بڑھتے ہوئے قانونی مسائل کے بعد پارٹی قیادت کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت کی عکاس ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست ہمیشہ سے عمران خان کی ذات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اب اگر پارٹی کے رہنما ان کی ہدایات کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو وہ مستقبل میں نئی سیاسی صف بندی کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں یا پھر ذاتی سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔”کچھ ماہرین کے خیال میں حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ پارٹی کے بعض حلقے اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ سخت ٹکراؤ کی پالیسی نہ صرف عوامی حمایت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ قانونی طور پر بھی عمران خان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہےکہ پاکستان کی سیاست میں ٹکراؤ سے زیادہ مفاہمت کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے رہنما موجودہ حالات میں مذاکرات کا راستہ اپنا رہے ہیں تو یہ دراصل زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی بغاوت حقیقت میں عمران خان کی قیادت پر عدم اعتماد کا واضح اظہار ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے کھلے عام عمران خان کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو آنے والے دنوں میں پارٹی مزید تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں جماعتی وفاداریاں اکثر ذاتی مفادات اور وقتی حالات کے تابع ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی یہ بغاوت دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان کے عدم اتفاق پر پی ٹی آئی میں مستقبل قریب میں نئی سیاسی صف بندیاں وجود میں آ سکتی ہیں۔

Back to top button