سونے کے بڑے پاکستانی تاجر ISI اور FIA کے ریڈار پر کیوں آگئے؟

گولڈ بزنس کی آڑ میں منی لانڈرنگ میں ملوث کالی بھیڑیں آئی ایس آئی اور ایف آئی اے کے ریڈرا پر آ گئیں۔ سول و عسکری اداروں نے سونے کے کاروبار کی آڑ میں حوالہ ہنڈی اور فارن کرنسی کے غیر قانونی دھندوں میں ملوث تاجروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ سیکیورٹی اداروں کی مشترکہ کارروائیوں میں بڑی گرفتاریوں کے بعد ملک بھر کی صرافہ مارکیٹوں میں کھلبلی مچ گئی۔ چھاپوں کے بعد سناروں کی تمام نمائندہ تنظیموں نے خود ہی تاجروں غیر قانونی کاروبار سے دور رہنے کے حوالے سے متنبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مختلف شہروں میں سناروں کے واٹس ایپ گروپوں میں پیغامات گردش کر رہے ہیں کہ "غیر قانونی دھندوں سے دور رہیں، ورنہ نتائج سنگین ہوں گے”۔ یہ پیغامات اس بات کی علامت ہیں کہ مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے اور چھوٹے بڑے تاجر اپنی پوزیشن واضح کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں سونے کا کاروبار ہمیشہ سے محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن جب یہ کاروبار ڈالر اسمگلنگ اور ہنڈی حوالہ کے لیے استعمال ہونے لگے تو یہ ریاستی مفاد کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر سونے کی خرید و فروخت کے لین دین کے پیچھے بھاری رقوم ڈالرز میں اندرون و بیرون ملک منتقل کی جاتی ہیں، جس سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کریک ڈاؤن کی تیاریاں دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ حکومت اب صرف مافیا کو نہیں بلکہ اس کے سہولت کاروں کو بھی نشانہ بنانے جا رہی ہے۔ سناروں کی نمائندہ تنظیموں کا بار بار تنبیہ کرنا بھی اسی دباؤ کا شاخسانہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر چند عناصر کے غیر قانونی کاموں کی وجہ سے پوری برادری زد میں آ گئی تو انھیں نا قابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ تاہم حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران عوامی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت واقعی اس مافیا کی کمر توڑ سکے گی یا ہمیشہ کی طرح بڑے مگرمچھ بچ نکلیں گے اور چھوٹے تاجر قربانی کا بکرا بنیں گے؟
تاہم ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ بارے ٹھوس ثبوت ہاتھ لگنے کے بعد وفاقی اداروں کی جانب سے اب تک کراچی، لاہور اور پشاور کی مختلف مارکیٹوں میں متعدد چھاپے مارےگئے ہیں۔ جس میں ایک درجن سے زائد تاجروں اور ان کے عملے کے افراد کو حراست میں لے تفتیش کی جا رہی ہے۔ اس دوران ان سے ملنے والے سونے، غیرملکی کرنسی اور دستاویزی ریکارڈ کو بھی ضبط کر کے ان کی دکانیں سیل کر دی گئی ہیں۔ جبکہ ان کے پورے نیٹ ورک کا کھوج لگانے اور سونے کے عوض غیر ملکی کرنسی کی منی لانڈرنگ کرنے والوں کی فہرستیں تیار کرنے کیلئے زیر حراست افراد کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی فرانزک تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ جس کے بعد آنے والے دنوں میں مزید پردہ نشینوں کے بے نقاب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی مچھلیوں کے بھی گرفت میں آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں جیولری اور گولڈ کے کاروبار سے منسلک تاجروں پر سناروں کی نمائندہ تنظیموں نے واضح کر دیا ہے کہ ملکی اداروں نے ملنے والی رپورٹوں اور خفیہ اطلاعات پر گولڈ کے کاروبار سے وابستہ منی لانڈرنگ میں ملوث کالی بھیڑوں کیخلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔ جس دوران تحقیقاتی اداروں کو معلوم ہوا ہے کہ بعض تاجر سونے کا لین دین صرف غیر ملکی کرنسی بالخصوص امریکی ڈالر میں کر رہے ہیں۔ تاجروں کا یہ عمل حوالہ ہنڈی، سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ ملکی موجودہ معاشی صورتحال میں غیر ملکی کرنسی میں سونے کی خریدوفروخت ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ یہ طرز عمل نہ پاکستان گولڈ انڈسٹری کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے اس لئے اگر کوئی بھی فرد سناروں کے پاس جیولری یا بسکٹ خریدنے کیلئے غیر ملکی کرنسی ساتھ لاتا ہے تو اس کو کہیں کہ اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کر کے لائیں۔ اس کے بعد ہی سونے کا لین دین کیا جائے گا۔ موجودہ کریک ڈاؤن سے بچنے کیلئے سونے کے تاجر خود کو غیر ملکی کرنسی اور حوالہ ہنڈی سے دور رکھیں۔ ورنہ وہ بھی چھاپہ مار کارروائیوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران جو عناصر سونے کے کاروبار اور لین دین کی آڑ میں ڈالرز سمیت غیر ملکی کرنسی کے غیر قانونی لین دین میں ملوث پائے جائیں گے۔ ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں نمائندہ تنظیمیں اور تاجر رہنما کچھ نہیں کریں گے۔ اس لئے ملک بھر کے صرافہ بازاروں کے تاجروں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ سونے کی خرید و فروخت صرف پاکستانی کرنسی میں کریں اور کسی بھی قسم کی غیر ملکی کرنسی کے لین دین سے گریز کریں تا کہ شکنجے میں آنے سے بچ سکیں.
