مخصوص سیٹوں پر پارلیمنٹیرین بننے والی خواتین کیا اٹھائے پھرتی ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ اگر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں پہنچنے والی خواتین اراکین کی پرفارمنس کا آڈٹ کروایا جائے تو پتہ چلے گا کہ درجن بھر قابل خواتین کو چھوڑ کر باقی یا تو بیگم صاحبہ کا قیمتی ہینڈ بیگ اٹھانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں یا پارٹی سربراہ کی مسلسل خوشامد پر فوکس کرتی ہیں۔

رؤف کلاسرا اپنے سیاسی تجزیہ میں لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف نے جب 2002 کے عام انتخابات میں خواتین کیلئے 33 فیصد نشستیں مخصوص کرنے کا اعلان کیا تھا تب تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس کی آمریت کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں۔ تب سیاسی جماعتیں مشرف سے نفرت کرتی تھیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ خواتین کو 33 فیصد مخصوص نشستیں دینے کا جرنیلی فیصلہ سبھی کو بہت پسند آیا۔ مشرف کا خیال تھا کہ جب ہزاروں خواتین سینیٹ‘ قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلیوں اور ضلع اور تحصیل کونسلوں میں موجود ہوں گی تو عالمی سطح پر پاکستان کی پذیرائی کے علاوہ خواتین کو ملک میں وہ عزت اور وقار نصیب ہو گا جسکی وہ حقدار ہیں۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ سوچ بھی کار فرما تھی کہ معاشرے میں خواتین کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تدارک انہیں اُن اعلیٰ سیاسی فورمز میں حصہ دار بنایا جائے۔

لیکن مشرف کو علم نہیں تھا کہ ان نشستوں پر عام خواتین کو نمائندگی دینے کے بجائے سیاستدان اپنے گھر کی خواتین ہی کو لا کر بٹھا دیں گے۔ اگر آپ 2002 سے 2007 کی قومی اسمبلی کی نشستیں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مذہبی یا سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی اکثریت نے پہلے اپنی گھریلو خواتین کو ترجیح دی‘ پھر رشتہ دار خواتین تلاش کی گئیں‘ پھر دوستوں کی باری لگی اور اس کے بعد بھی اگر کوئی نشست خالی رہ گئی تو ناقدین کے منہ بند کرنے کیلئے پارٹی کی کسی وفادار خاتون کو ممبر بنا دیا گیا۔ جن خواتین میں مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ کی گئی‘ وہ سب ایلیٹ گھرانوں کی تھیں، نہ کہ عام ورکرز۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ جب مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے خواتین کو علم ہوا کہ پارلیمنٹرینز ترقیاتی فنڈز کو خفیہ کمیشن پر بیچ دیتے ہیں تو انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ پر ٹھیکیدار متعلقہ رکن اسمبلی کو بیس‘ پچیس لاکھ روپے کمیشن دیتا ہے۔ پہلے اُن خواتین سے ان کا ڈویلپمنٹ فنڈ پارٹی کے لیڈر اپنے حلقے کیلئے حاصل کر لیتے تھے اور یہ موقف اختیار کرتے تھے کہ تم لوگوں کا اپنا تو کوئی حلقہ نہیں‘ تم نے پیسے کہاں لگانے ہیں۔ لیکن پھر خواتین بھی دھیرے دھیرے سیانی ہو گئیں اور انہوں نے اپنے ترقیاتی فنڈز خود خرچنا شروع کر دیے تاکہ کمیشن بھی خود حاصل کر سکیں۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ یقینا اس دوران چند قابل اور ایماندار خواتین بھی مخصوص نشستوں پر پارلیمنٹ میں پہنچیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اکثر خواتین کا اسمبلی میں ایک ہی کام تھا کہ انہوں نے پارٹی لائن کے مطابق ایوان میں شور شرابہ کرنا ہے یا لیڈر کی تقریر پر سوچے سمجھے بغیر تالیاں اور ڈیسک بجانے ہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ صوبائی سطح پر یہ نشستیں تمام اضلاع میں بانٹنے کے بجائے دو تین شہروں میں ہی بانٹ دی گئیں اور زیادہ تر اپنی برادری کو دی گئیں۔ یقین نہیں آتا تو 2018 کی پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر لاہور کی خواتین کی تعداد اور نام پڑھ لیں۔ سب سیاسی پارٹیوں نے مجموعی طور پر 40 سے زائد مخصوص نشستیں صرف لاہور کی خواتین کو دیں۔

ایک جانب نواز شریف کی مسلم لیگ نون نے کشمیری بٹ برادری کی بنیاد پر سیٹیں تقسیم کیں تو عمران خان نے مخصوص سیٹیں لاہور کی اشرافیہ میں بانٹ دیں۔ پنجاب کے بیشتر اضلاع سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک بھی مخصوص سیٹ نہ ملی جبکہ صرف لاہور کی 40 خواتین کو یہ نشستیں دے دی گئیں۔ یعنی لاہور کی اُن 40 خواتین کو سیاسی طور پر مزید طاقتور کیا گیا جو پہلے ہی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی تھیں‘ اور جنہیں عام پاکستانی خواتین کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

کلاسرا کے بقول اب سب کو پتا ہے کہ اگر مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں جانا ہے تو سارا دن لیڈر شپ کی خوشامد کریں اور ان کے مخالفین کا ناطقہ بند کریں۔ کیا کوئی پڑھی لکھی ڈیسنٹ خاتون ایسے ماحول میں پارلیمنٹرین بننے کا سوچ سکتی ہے جہاں لیڈر کا بیگ اٹھانا یا خوشامد کرنا اور ٹی وی شوز میں بدتمیزی کرنا ہی اصل میرٹ ہو؟ ابھی چند ماہ قبل اراکین کی تنخواہیں کئی سو فیصد بڑھا دی گئیں۔ الاؤنس اور دیگر مراعات الگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ ملک جو قرض پر چل رہا ہے اور جہاں ٹیکسوں کی بھرمار ہے وہاں اتنی بڑی تعداد میں مخصوص نشستوں پر خواتین لا کر آپ نے کیا کام لینا ہے؟

انڈیا بڑے پاکستانی حملے کی دھمکی کے بعد سیز فائر پر مجبور ہوا

خواجہ آصف کو آپ نے سن لیا ہو گا جنہوں نے بتایا کہ کیسے سپیکر قومی اسمبلی نے اپنی تنخواہ بڑھا کر 21 لاکھ روپے ماہانہ کر لی ہے۔ لوگ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے پر چیخ رہے ہیں اور ارکانِ اسمبلی اپنی تنخوائیں بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب عوام دیکھ رہے ہیں کہ ان مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف‘ پی پی پی‘ نواز لیگ اور جے یو آئی کے لوگ لڑ رہے ہیں۔ ایک پارٹی کہتی ہے یہ ہماری نشستیں ہیں تو دوسری کہتی ہے کہ ہماری ہیں۔ کلاسرا کہتے ہیں کہ میں بائیس سال سے پارلیمنٹ رپورٹنگ کر رہا ہوں‘ اس دوران چند خواتین پارلیمنٹرینز کو چھوڑ کر جو سینکڑوں خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں آئیں‘ ان کی نام نہاد کارکردگی کا میں عینی شاہد ہوں۔ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ ان خواتین پر کتنا پیسہ خرچ ہوا اور ان کی آؤٹ پٹ کیا رہی۔ کسی دن ان مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی سینکڑوں خواتین کی پرفارمنس کا آڈٹ ہو گیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

Back to top button