طالبان کی جیت سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھنے کا خدشہ

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران پاکستان میں افغان طالبان کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت اور ہمدردی سے جہاں پاکستانی طالبان کی دوبارہ واپسی کا خطرہ بڑھ رہا ہے وہیں ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پشاور میں ایک طالبان کمانڈر کی نماز جنازہ کے بعد نکالے جانے والے بڑے جلوس میں افغان طالبان کے جھنڈے لہرائے گے اور انکے حق میں نعرے بازی کی گئی۔ دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ‘افغان طالبان کی حمایت‘ میں بیان دیے ہیں۔ تاہم سول سوسائٹی وزراء کے ان بیانات پر نہ صرف چراغ پا ہے بلکہ وہ طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان انیس سو نوے کی غلطیاں دہرا رہا ہے، جن کی بہت بھاری قیمت پاکستانی سماج کو بھگتنا پڑے گی۔
طالبان کے لیے بڑھتی ہوئی اس حمایت پر سب سے زیادہ تشویش خواتین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو ہے کیونکہ ماضی میں افغان اور پاکستانی طالبان نے خواتین کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک روا رکھا۔ وویمن ایکشن فورم سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان ایک ہی ‘سکے کے دو رخ‘ ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ نظریاتی حوالے سے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہی ہیں اور اس بات کا اظہار خود طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی سلیم صافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ انہون نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے دونوں کی سوچ ایک جیسی ہے۔ جب سہیل شاہین سے خواتین کے حقوق کے مستقبل بارے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا گول مول جواب دیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ مفتی کریں گے۔‘‘ مہناز رحمان کے مطابق انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو اس مقبولیت پر بہت تشویش ہے اور وہ افغانستان سے آنے والی خبروں پر بہت فکرمند ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کے مضبوط ہونے سے پاکستانی طالبان بھی مضبوط ہوں گے، ”اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ ہیں، جنہوں نے اے پی ایس میں طلباء کو نشانہ بنایا اور تیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کیا۔ انہوں نے پاکستان میں فرقہ واریت پھیلائی اور مختلف فرقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو بھی ٹارگٹ کیا۔ ایسے لوگوں سے ہمدردی رکھنا یا ان کی حمایت کرنا ان لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جن کے پیارے دہشت گردی کی جنگ میں انتہاپسندوں کا نشانہ بنے۔‘‘
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغانستان پر خواتین پر پابندیاں لگانی شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ”ہم افغان خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، جو طالبان کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغان طالبان کے لئے بڑھتی ہوئی حمایت افسوس ناک ہے لیکن پاکستان کی سول سوسائٹی اور خواتین کسی بھی انتہاپسند تنظیم کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک جیسے ہی ہیں اور افغان طالبان کی حمایت دراصل پاکستانی طالبان کی حمایت ہے، جنہوں نے پاکستان میں خواتین کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا۔ بنیادی حقوق کو غصب کیا۔ آئین کو پامال کیا۔ افغان طالبان کی اس طرح کی حمایت انتہا پسند تنظیموں کے پاکستان میں حوصلے بڑھائے گی۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان انیس سو نوے کی غلطیاں دہرا رہا ہے، جن کی بہت بھاری قیمت پاکستانی سماج کو بھگتنا پڑے گی۔ انکا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں بھی ہم نے طالبان کی حمایت کی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان بنی اور ملک میں ہزاروں افراد کو قتل کیا اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک میں فرقہ واریت پھیلائی۔ مزارات اور امام بارگاہوں پر حملے کیے اور ان مسلمانوں پر بھی حملے کیے، جو طالبان کی نظریے سے متفق نہیں تھے۔ افغان طالبان کی اس طرح پھر حمایت کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ایک بار پھر سرگرم ہوں گے اور وہ یہاں پر اپنی جڑوں کو مضبوط کریں گے جس سے دہشت گردی اور خونریزی کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے پہلے ہی مختلف قبائلی علاقوں کے لیے اپنے گورنرز نامزد کردیے ہیں، ”اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی طالبان کمانڈرز آ گئے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر افغان طالبان کی حمایت کر رہی ہے اور افغان طالبان پاکستانی طالبان کے نظریاتی بھائی ہیں۔ لہازا پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہوں نہ کہ طالبان کے ساتھ۔‘‘