علی وزیر کی نااہلی کی حکومتی کوششوں کو دھچکا

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی اسمبلی رکنیت ختم کروانے کی کوششوں کو تب شدید دھچکا پہنچا جب الیکشن کمیشن نے یہ واضح کیا کہ عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد ہی کوئی پارلیمنٹرین نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے تین ماہ سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مشترکہ طور پر پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو نااہل کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 5 جولائی کے روز علی وزیر کی اسمبلی رکنیت معطل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ارٹیکل 63 جی کے تحت کسی بھی منتخب رکن اسمبکی کی نااہلی کے لیے عدالتی سزا سنایا جانا لازم ہے، اگر کسی رکن اسمبلی کو سزا ہو تو جائے تو وہ اسمبلی رکنیت کے لیے اہل نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 جی کے مطابق اگر کوئی رکن اسمبلی کسی بھی عدالت سے ایسے جرائم پر سزا یافتہ ہو جن میں ’ملکی سالمیت کے خلاف کوئی عمل کیا گیا ہو یا پھر ایسا بیان دیا گیا ہو جو نظریہ پاکستان سے متصادم ہو، تو پھر وہ قومی اسمبلی کی رُکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔
5 جولائی کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں علی وزیر کی نااہلی کی درخواست پر سماعت جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی درخواست 63 جی کے تحت نا اہلی نہیں بلکہ 63 پی ہے جس کے تحت سزا یافتہ یا کسی آئینی ملکی سلامتی کی خلاف ورزی ہونے پر عارضی طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے نا اہلی کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کو مکمل شواہد جمع کرانے کا آخری موقع دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سماعت پر بھی الیکشن کمیشن نے حکومت سے علی وزیر کے خلاف کیس کیساتھ شواہد مانگے تھے جو فراہ۔ نہیں کیے گے، الیکشن کمیشن نے ھکومت سے علی وزیر کے خلاف کیسوں کی ایف آئی آرز اور ان پر پیش رفت کی تفصیلات مانگی تھیں جو تاحال جمع نہیں کرائے گئے۔ گذشتہ سماعت میں درخواست گزار کے وکیل نے علی وزیر کے بیانات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں پیش کیا تھا جن کی بنیاد پر ان کے خلاف غداری کے مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
تاہم کیسز کی سماعت کے دوران رکن الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے واضح کیا کہ اگر رکن اسمبکی کو سزا ہو تو وہ اسمبلی رکنیت کے لیے اہل نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن میں ابھی تک رکن اسمبلی کے خلاف مستند پولیس رپورٹیں جمع نہیں کرائی گئیں، سزا تو دور کی بات ہے ابھی تک تو ملزم کے خلاف فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی۔ اس موقع پر وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آرز کی مصدقہ نقل کے لیے متعلقہ صوبوں کے ہوم ڈپارٹمنٹس کو لکھا ہے، امید ہے پانچ چھ روز میں مل جائیں گی۔ اس نے بتایا کہ علی وزیر کی تین پشتو تقاریر کا ترجمہ کرا کے ٹرانسکرپٹ تیار کرنے کا کام پشاور یونیورسٹی کو دے دیا ہے۔ پی ٹی ایم رہنما کے خلاف ایجنسیوں کے پروردہ درخواست گزار فضل خان کے وکیل نے ارکانِ الیکشن کمیشن کو بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے میری درخواست پر علی وزیر کی نا اہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا تھا۔ واضح رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے رواں برس جنوری میں شکایات موصول ہونے پر علی وزیر کی رُکنیت ختم کرنے کے لیے ریفرنس الیکشن کمیشن بھجوایا تھا۔ اس پر الیکشن کمیشن نے استفسار کیا تھا: ’آپ نے کہا کہ علی وزیر دہشت گرد ہیں، چنانچہ یہ بتایا جائے کہ علی وزیر کے خلاف ایف آئی آرز کس سیکشن کے تحت درج ہیں؟ زیادہ تر ایف آئی آرز تو معمولی نوعیت کی ہیں۔ کسی بندے کو سنے بغیر سزا نہیں سنائی جا سکتی۔ الیکشن کمیشن نے یہ سوال بھی کیا کہ انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں ایس ایچ او نے ملزم کے خلاف شیڈول فورکے تحت اقدام کیوں نہیں کیا؟‘ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اس کیس کے حوالے پہلے خود مطمئن ہونا چاہتے ہیں، پھر فریق کو نوٹس جاری کریں گے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 13 جولائی تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ علی وزیر کے خلاف درخواست تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فضل خان نے دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ رکن اسمبلی علی وزیر مُلک مخالف تقاریر کر کے قومی اسمبلی میں لیے گئے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں آرٹیکل 63 پی کے تحت کچھ وقت کے لیے رکنیت سے نا اہل کیا جائے۔
واضح رہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف مجرمانہ سازشوں کے الزام میں گذشتہ برس ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ عدالت حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پی ٹی ایم کے مبینہ غیر قانونی آپریشنز اور سرگرمیوں، ممبرشپ، فنڈز اور روابط کو بے نقاب کرنے کے لیے تحقیقات کرے۔
خیال رہے کہ علی وزیر کو گذشتہ برس دسمبر میں پشاور پولیس نے آرمی پبلک اسکول حملے کے متاثرہ والدین کے احتجاجی دھرنے سے گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں پشاور کی مقامی عدالت نے علی وزیر کو سندھ پولیس کے حوالے کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
پشاور پولیس حکام کے مطابق علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں گذشتہ سال چھ دسمبر کو دفعات 505 بی، 153 اے، 120 بی، 34، 506 اور 188 کے تحت مقدمات درج ہیں اور ان ہی دفعات کے تحت پشاور کی پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔گذشتہ ماہ قومی اسمبلی میں تین ہفتے جاری رہنے والے بجٹ اجلاس کے آخری دن علی وزیر کو پروڈکشن آرڈر پر پیش کیا گیا تاہم انہوں نے وہاں میڈیا نمائندگان کو کوئی بھی کمنٹ دینے سے اجتناب کیا تھا۔
اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے قومی سلامتی امور پر پارلیمانی اجلاس، جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی تھی، اُس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے علی وزیر کو معاف کرنے کا کہا تھا۔ پارلیمانی دفاعی کمیٹی اجلاس میں آرمی چیف نے بلاول۔کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست دان ہمارے نام لے کر بات کرتے ہیں لیکن ادارے کو گالی دینا ناقابل قبول ہے، علی وزیر کو معافی مانگنا پڑے گی۔‘
دوسری جانب قومی سلامتی کمیٹی کے پارلیمانی اجلاس کی خبریں سامنے آنے پر علی وزیر نے آرمی چیف کو کُھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ’تاریخ میری سچائی ثابت کرے گی! مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ نے مگذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے اراکین کو قومی سلامتی پر ان کیمرہ بریفنگ میں کہا کہ اگر میں آپ سے معافی مانگوں، تب ہی مجھے رہائی ملے گی! آپ کا مجھ سے معافی کا مطالبہ کرنا ہی اِس تلخ حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس ملک میں حکمرانی، جزا و سزا کا اختیار کس کے پاس ہے اور کون لوگ مجھے بار بار زندانوں میں ڈالتے ہیں؟ آپ کا یہ مطالبہ قطعاً غیر جمہوری، غیر آئینی، اورغیر قانونی ہے اور میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ مجھ سے معافی منگوانے کی بجائے آپ مجھ سے معافی مانگیں’۔