وکلاء مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ میں جونیئر جج لگ گیا


حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے عین مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان بار کونسل اور سنیئر ججز کی بھرپور مخالفت کے باجود سندھ ہائیکورٹ کے پانچویں نمبر کے جونیئر جج محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کئے جانے کے بعد بار کونسل اور دیگر بڑی وکلا تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس غیر قانونی تقرر کے خلاف ایک نئی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسکا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی مرضی کے ججز کی تعداد بڑھانے کی کوشش تب کامیاب ہوگئی جب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 28 جولائی کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مقبول باقر، سابق سپریم کورٹ جج دوست محمد خان اور پی بی سی کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ اختر حسین کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے کی بنیاد پر سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر آنے والے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کے سپریم کورٹ میں تقرر کی منظوری دے دی۔ جے سی پی کے فیصلے کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس حسن اظہر مرزا پر ترجیح دی گئی۔ وکیل رہنمائوں نے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیا سارے سینئر ججز جنہیں زیر غور نہیں لایا گیا، وہ پروموسن کے معیار پر پورا اترنے کے اہل نہیں تھے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے کسی جونیئر جج کا سپریم کورٹ میں تقرر کیا گیا ہو، اس سے قبل اپریل 2018 میں جسٹس منیب اختر جو سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھے انہیں ترقی دی گئی تھی۔ خیال رہے کہ جسٹس فیصل عرب 4 نومبر 2020 کو اور جسٹس منظور احمد ملک 30 اپریل 2021 کو اپنی مدت ملازمت پوری کرچکے تھے، تاہم ان کی جگہ دو نئے ججز کے تقرر میں کئی مہینے لگ گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر حالیہ تقرریوں کے بعد سپریم کورٹ کے 17 ججز کی مجموعی تعداد مکمل ہوگئی ہے۔
لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان یا جے سی پی نے کثرت رائے کی بنیاد پر سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر آنے والے سندھ ہائی کورٹ کے جج کے سپریم کورٹ میں تقرر کی منظوری کے بعد پاکستان بار کونسل یا پی بی سی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور انہوں نے 5 اگست کو تمام صوبائی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کا جنرل باڈی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان بار کونسل سمیت مختلف بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے انعقاد کے موقع پر 28 جولائی کو ‘یوم سیاہ’ کے طور پر منایا تھا۔پی بی سی کے علاوہ سندھ بار کونسل، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی 28 جولائی کو یوم سیاہ منایا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وکلا تنظیموں کا مطالبہ رھا کہ ججز کے تقرر کے سلسلے میں سنیارٹی کے اصول پر عمل کیا کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے پانچویں نمبر کے جج کی بجائے سنیئر موسٹ جج کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کونسل نے ایک جونیئر جج کو ترقی دے دی۔
قانونی اور سیاسی حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سپریم کورٹ میں باضمیر ججز کو کائونٹر کرنے کے لئے اپنی مرضی کے ججز لگانے کی کوشش کرر ہی ہے اور اس مقصد کے لئے جونیئر ججز کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔
28 جولائی کے روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر صدارت دو گھنٹے سے زائد طویل اجلاس کے دوران جے سی پی نے سپریم کورٹ میں جج کی خالی آسامی کو پُر کرنے کے لیے کشیدہ ماحول میں جسٹس محمد علی مظہر کی نامزدگی کی منظوری دی۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ جے سی پی اجلاس کے دوران جن افراد نے اس فیصلے کی مخالفت کی ان میں جسٹس مقبول باقر، سابق سپریم کورٹ جج دوست محمد خان اور پی بی سی کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ اختر حسین شامل تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس وقت کرونا کا شکار ہیں لیکن انہوں نے ایڈووکیٹ اختر حسین کے ذریعے جوڈیشل کونسل کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا تھا۔ جے سی پی کے دیگر اراکین چیف جسٹس، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم تھے۔ اس متنازع فیصلے کے فوراً بعد ہی ‘پی بی سی’ کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے 5 اگست کے لیے جنرل باڈی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے جس میں تمام صوبائی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین اور ان کی ایگزیکٹو کمیٹیوں کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ خوش دل خان نے بتایا کہ ہم جے سی پی کے اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے نے وکلا برادری کو مکمل طور پر مایوس کر دیا ہے اور اکثریت کے فیصلے کو آئین اور سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی قرار دیا۔ جے سی پی نے 13 جولائی کو اپنے آخری اجلاس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کی تھی، لیکن جسٹس محمد علی مظہر کے معاملے پر وکلا نے سنیارٹی کے اصول نظر انداز ہونے سے متعلق خدشات ظاہر کیے تھے جس پر ان کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا۔
تاہم اب سپریم کورٹ میں ایک جونیئر جج کی تقرری کے خلاف پاکستان بار کونسل اور وکلاء کی دیگر بڑی نمائندہ تنظیموں نے ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔

Back to top button