پنجابی ووٹرز نے روایتی سیاست کو مسترد کیوں کیا؟

الیکشن 2024 کے نتائج نے شریف برادران سمیت بڑے بڑے سیاستدانوں کو چونکا کر رکھ دیا ہے، روایتی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے سنٹرل پنجاب اور جی ٹی روڈ کے اضلاع نے اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالا، خود مسلم لیگ ن کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔’’ڈی ڈبلیو اردو‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر رئیس بخش رسول کہتے ہیں، میاں صاحبان سادہ اکثریت کی توقع لگائے بیٹھے تھے اور ان کی اُمیدوں کا محور پنجاب تھا، مگر یہاں کے ووٹر نے نہ صرف انہیں بلکہ روایتی سیاست کو ہی بُری طرح مسترد کر دیا۔اب تک کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 96 جبکہ پنجاب اسمبلی کی 117 نشستوں پر کامیاب ہو چکی ہے جبکہ پاکستان مسلم ن قومی اسمبلی کی 73 اور پنجاب اسمبلی کی 133 نشستوں پر جیت چکی ہے، عمران خان کو تین مختلف مقدمات میں سزا، بلے کے نشان اور لیول پلیئنگ فیلڈ سے محرومی کے باوجود آخر مسلم لیگ ن اپنے گڑھ پنجاب سے توقعات کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ اور پاکستان تحریک انصاف کی فتح کے پیچھے کون سے رجحانات کار فرماں تھے؟ ہم نے مختلف تجزیہ کاروں سے جاننے کی کوشش کی ہے۔انتخابی امور کے ماہر احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اصل طاقت جی ٹی روڈ کے اضلاع اور وسطی پنجاب رہے ہیں جہاں مشکل وقتوں میں بھی نواز شریف کا جادو چلا مگر اس بار صورتحال مختلف رہی۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں، جی ٹی روڈ مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا یہاں 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے 79 حلقوں میں سے 72 پر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ اس بار یہاں سے تقریباً نصف سیٹیں آزاد یعنی پی ٹی آئی کے امیدوار جیتنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد غیر معروف چہرے ہیں، یہ غیر معمولی اور انقلاب ساز رجحان ہے۔معروف دانشور وجاہت مسعود کی رائے مختلف ہے، ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی کارکردگی غیر متوقع تو کہی جا سکتی ہے لیکن رجحان ساز نہیں، احمد اعجاز کہتے ہیں کہ پنجاب میں رجحانات تبدیل ہوئے، نوجوان ووٹر نے روایتی سیاست کو مسترد کیا لیکن یہ نظریاتی سیاست کی واپسی یا معاشرے میں انقلاب جیسی صورتحال ہرگز نہیں، اگر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے نہ ہٹایا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی نسیم زہرا کہتی ہیں، پنجاب کے ووٹر نے مسلم لیگ ن اور دھڑے برادری کی روایتی سیاست کو کلین بولڈ کر دیا، یہ وہی بات ہے کہ عمران خان کے نام پر لوگوں نے کھمبوں کو ووٹ دے کر جتوایا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے پاکستان میں دھڑے، برادری اور جوڑ توڑ کی سیاست کی بنیاد رکھی، سب اُمیدوار آزاد تھے جنہوں نے ووٹ مانگنے کے لیے برادری ازم کا سہارا لیا۔تجزیہ کار فریحہ ادریس ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں کہ پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کی وجہ ووٹر کا ری ایکشن ہے خاص طور پر نوجوان ووٹر کا، جس کو پی ٹی آئی نے مسلسل غیر روایتی اندازمیں انگیج رکھا، ایک بیانیہ بنایا اور اس کو مسلسل فیڈ کیا، بطور وزیراعظم عمران خان نے ٹک ٹاکرز سے ملاقاتیں کیں جس پر دیگر پارٹیوں نے مذاق اڑایا، مبصرین کے نزدیک الیکٹیبلز سمجھے جانے والے مسلم لیگ ن کے نامور سیاست دانوں کی پنجاب میں شکست بھی بدلتے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔روایتی طور پر لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں خواجہ سعد رفیق اور شیخ روحیل اصغر جیسے پرانے الیکٹیبلز شکست سے دوچار ہو گئے، اسی طرح این اے 115 شیخوپورہ سے آزاد اُمیدوار خرم شہزاد نے ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل جاوید لطیف محض 88 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔

Back to top button