پاکستانیوں کا ذاتی ڈیٹا چوری کرنے میں ملوث 140 ویب سائٹس بے نقاب

 

 

 

 

140 سے زائد ویب سائٹس، موبائل ایپلیکیشنز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستانی شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کی چوری اور آن لائن فروخت میں ملوث نکلے۔ تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آںے کے باوجود تاحل نہ تو کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اور نہ ہی حکومتی ادارے ان پلیٹ فارمز کو مکمل طورپر بند کرنے اور ان ویب سائٹس پر موجود ہزاروں پاکستانیوں کا ذاتی ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

 

خیال رہے کہ حالیہ دنوں سامنے آیا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں کا ذاتی ڈیٹا آن لائن ویب سائٹس پر فروخت کے لیے دستیاب ہے۔ اس ڈیٹا لیک سے نہ صرف عام شہری بلکہ وفاقی وزیر داخلہ سمیت اہم سرکاری افسر اور ملازمین بھی متاثر ہوئے تھے۔ آن لائن دستیاب پاکستانی شہریوں، وزرا اور سرکاری افسروں کے ذاتی ڈیٹا میں نہ صرف قومی شناختی کارڈ نمبر، مکمل نام، والد کا نام، تاریخِ پیدائش، موبائل نمبر، رجسٹرڈ پتہ اور ای میل ایڈریس شامل ہیں بلکہ اس کے ساتھ حساس معلومات بھی موجود تھیں۔ان میں ٹیلی کام ریکارڈز جیسے کال ہسٹری، ایس ایم ایس لاگز اور سم رجسٹریشن کی تفصیلات بھی شامل تھیں جبکہ بعض ویب سائٹس پر شہریوں کے موبائل فون کی لوکیشن ہسٹری تک دستیاب تھی جو سکیورٹی اور پرائیویسی دونوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا تھا۔علاوہ ازیں بعض ویب سائٹس پر شہریوں کی سفری تفصیلات، بیرونِ ملک سفر کی ہسٹری، روانگی اور آمد کا ریکارڈ، سرکاری عہدے اور سرکاری ای میلز بھی شامل ہیں، جو مختلف قیمتوں پر آن لائن فروخت کی جا رہی تھیں۔

جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کو اس مذموم کارروائی میں ملوث پلیٹ فارمز کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ جس کے بعد این سی سی آئی اے نےاپنی تفتیش میں 140 سے زائد ایسے پلیٹ فارمز کی نشاندہی کی تھی جو شہریوں کا ڈیٹا فروخت کرنے میں ملوث تھے۔ ان میں ویب سائٹس، موبائل ایپلیکیشنز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس شامل ہیں۔

برطانیہ سے چوری شدہ رینج روور کراچی کیسے پہنچی؟

تفتیش کے مطابق مجموعی طور پر 75 فیس بک اکاؤنٹس، 18 موبائل ایپس، 17 ویب سائٹس، 12 ٹیلی گرام چینلز، 10 ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور دو یوٹیوب چینلز ایسے ہیں جن پر شہریوں کا ذاتی ڈیٹا موجود تھا اور اس کی خرید و فروخت کی جا رہی تھی۔ علاوہ ازیں ایک واٹس ایپ گروپ بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔

این سی سی آئی اے کی جانب سے اب تک اس حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گی تاہم تحقیقاتی ادارے کے مطابق جلد ان پلیٹ فارمز کو چلانے والوں اور اس دھندے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔ تاہم این سی سی آئی اے نے 139 پلیٹ فارمز کی تفصیلات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو بھیج دی ہیں جس نے ان میں سے بیشتر پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا ہے۔

 

تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلاک کیے گئے آن لائن پلیٹ فارمز سے شہریوں کا ذاتی ڈیٹا ختم بھی ہو سکے گا یا نہیں؟ سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق کسی بھی ویب سائٹ کو بلاک کرنے سے صارفین کا اس ویب سائیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ذاتی ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں ہو گا بلکہ وہ بدستور اس پر موجود رہے گا۔ اگرچہ پی ٹی اے کی جانب سے ایسے پلیٹ فارمز کو بلاک کر دینا ایک مثبت قدم ہے جس سے اب عام شہری کے لیے ان پلیٹ فارمز تک رسائی ممکن نہیں ہو گی، البتہ آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے افراد دوسرے ذرائع مثلاً وی پی این کے ذریعے بآسانی ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جب ایسے دھندے میں ملوث افراد کا کوئی ایک پلیٹ فارم بلاک کیا جاتا ہے تو وہ فوراً دوسرا پلیٹ فارم بنا لیتے ہیں اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔‘انہوں نے خاص طور پر اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ’ٹیلی گرام پر اس نوعیت کے اکاؤنٹس کو روکنا نہایت مشکل ہے، اور وہاں اس کاروبار کے جاری رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘  کیاحکومت کی جانب سے اس جرم میں ملوث پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کے بعد شہریوں کا ذاتی ڈیٹا ریموو کر دیا جائے گا، اس سوال کے جواب میں سائبر سیکیورٹی ماہرین کا کہنا تھا کہ پلیٹ فارمز اگرچہ حکومتی ہدایات پر یہ پلیٹ فارمزبلاک کر دیے جائیں گے، لیکن جب تک اس دھندے میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، شہریوں کا ڈیٹا آن لائن مختلف ذرائع پر دستیاب رہے گا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’ایک پلیٹ فارم بلاک کر دینے سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا کیونکہ ملوث گروہ فوری طور پر نیا پلیٹ فارم بنا لیتے ہیں، خاص طور پر ٹیلی گرام پر لیک ہونے والا ڈیٹا کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے اور اس تک رسائی رکھنے والے لوگ آسانی سے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’حکام کو صرف پلیٹ فارمز بلاک کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ایسے پیجز چلانے والے افراد کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے ان کے نیٹ ورکس کو توڑتے ہوئے ملزموں کو فوری گرفتار کرناچاہیے تاکہ اس پورے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!