برطانیہ سے چوری شدہ رینج روور کراچی کیسے پہنچی؟

برطانیہ سے چوری ہونے والی انتہائی پرتعیش اور مہنگی رینج روور کی کراچی میں موجودگی کے انکشاف نے سندھ پولیس میں کھلبلی مچا دی ہے۔ مطلوب گاڑی کی تلاش کیلئے سر توڑ کوششوں کے باوجود تاحال سندھ پولیس کسی قسم کا سراغ لگانے میں ناکام نظر آتی ہے جس کے بعد سندھ حکومت نے جواباً انٹر پول سے چوری شدہ گاڑی کا ٹریکنگ لاگ طلب کر لیا ہے تاکہ برطانیہ سے چوری ہونے والی گاڑی کی بازیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیال رہے کہ برطانوی پولیس کے مطابق سیاہ رنگ کی رینج روور 22 نومبر 2022 کو برطانیہ کے علاقے ہیروگیٹ سے چوری ہوئی تھی۔ تاہم اب انٹر پول نے ایک خط کے ذریعے حکومت پاکستان کو اس گاڑی کی کراچی میں موجودگی سے آگاہ کیا ہے۔ برطانوی پولیس برطانیہ سے چوری شدہ گاڑی کے کراچی کے علاقے صدر میں موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے فراہم کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گاڑی میں ٹریکر نصب تھا جس سے پتا چلا کہ گاڑی کراچی میں کورنگی سروس روڈ، اعظم بستی، صدر ٹاؤن میں دیکھی گئی ہے۔ اس حوالے سے انٹرپول کی جانب سے سندھ پولیس کو بھیجے گئے خط میں برطانیہ سے چوری شدہ رینج روور کا کا سراغ لگانے کی استدعا کی گئی ہے۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل امجد شیخ نے انٹرپول کی جانب چوری شدہ گاڑی بارے خط موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا ہے کہ گاڑی 22 نومبر 2022 کو ہیروگیٹ کے علاقے سے چوری ہوئی، شروع میں گاڑی کا ٹریکر برطانیہ کی لوکیشن دکھاتا رہا، تاہم پھر ٹریکر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔‘ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ٹریکر 11 فروری 2025 کو پھر سے متحرک ہو گیا اور اس کی لوکیشن صدر، کورنگی روڈ اور اعظم بستی کے علاقوں میں دکھائی دی۔‘خط میں گاڑی کے حوالے سے تمام تفصیلات بھی شامل ہیں اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کو فوری طور پر تحویل میں لے لیا جائے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں جب برطانیہ سے چوری کی گئی کسی گاڑی کی پاکستان میں موجودگی کے شواہد سامنے آئے ہوں اس سے پہلے 2022 میں بھی ایک مہنگی ترین گاڑی کے لندن سے چوری ہونے کے بعد کراچی میں موجودگی کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ کسٹمز نے اس وقت اس کی قیمت 30 کروڑ سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا تھا۔ اس وقت حکام نے بتایا تھا کہ ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر کسٹم اہلکاروں نے کراچی کے علاقے ڈیفنس سے یہ گاڑی قبضے میں لی تھی۔ پولیس نے چوری کے الزام میں دو افراد کو بھی حراست میں لیا تھا۔حکام کا کہنا تھا کہ اس گاڑی کو کراچی میں غیر قانونی طور پر رجسٹر بھی کروا لیا گیا تھا، حالانکہ ایسی گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے وزارت خارجہ اور کسٹمز سے بھی منظوری لینا ضروری ہوتی ہے۔ گرفتاری کے بعد گاڑی کے مالک نے بیان دیا تھا کہ انھوں نے یہ گاڑی ایک بروکر کے ذریعے خریدی تھی، جس نے تمام کاغذات کلیئر کرانے کی ذمہ داری لی تھی جس پر بروکر کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ سمیت دیگر ممالک سے چوری شدہ گاڑیاں پاکستان کیسے پہنچتی ہیں اور ان کی رجسٹریشن کیسے مکمل کروائی جاتی ہے؟ ماہرین کے مطابق پا کستان کے کسٹمز اور رجسٹریشن کے نظام میں سخت قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد میں کوتاہیاں ایسے جرائم کے لیے گنجائش فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں سمگلنگ اور غیرقانونی گاڑیوں کو پاکستان پہنچانےوالے کئی نیٹ ورک موجود ہیں، جو متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے یہ جرائم سر انجام دیتے ہیں۔
پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج کے مطابق برطانیہ سے چوری شدہ گاڑیوں کو زمینی راستوں کی بجائے سمندری راستے سے پاکستان پہنچایا جاتا ہے۔ اس جرم میں ملوث گینگ‘ ملی بھگت سے یہ کارروائی ڈالتے ہیں اس میں ہوتا یہ ہے کہ جہاں سے بھی گاڑی آتی ہے وہاں پہلے گاڑی کی چوری رپورٹ نہیں کی جاتی کیونکہ جس ملک سے گاڑی نکل رہی ہے اور جس ملک میں آ رہی ہوتی ہے دونوں میں اس گاڑی کا سٹیٹس چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کے کاغذات پورے ہیں اور کہیں یہ اُس ملک میں چوری شدہ تو نہیں ہے کیونکہ اگر برآمد یا درآمد کی جانے والی گاڑی چوری کی ثابت ہو جائے تو اسے بندرگاہ پر ہی ضبط کر لیا جاتا ہے۔ چوری شدہ گاڑی کی کراچی میں موجودگی بارے سنیل کا کہنا تھا کہ گاڑی کے باہمی رضامندی کے ساتھ کراچی میں پہنچنے کے بعد لندن میں چوری کی اطلاع دی گئی تاکہ انشورنس کا دعویٰ ہوسکے۔’انھوں نے کہا کہ جو بھی گروہ یہ کام کرتا ہے وہ عام طور پر پہلے گاڑی دوسرے ملک منتقل کرتا ہے اور پھر جب اس ملک کی بندرگاہ پر گاڑی کلیئر ہو جاتی ہے تو اس کے بعد وہ اس ملک میں چوری رپورٹ کر دیتے ہیں اور پھر وہ ملک اس کی کھوج شروع کرتا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری شدہ گاڑی کی برآمدگی کے بعد اس جرم میں ملوث ملزمان کو کیا سزا ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی امجد شیخ کا کہنا تھا کہ گاڑی برآمد ہونے کی صورت میں چوری کی ایف آئی آر درج ہو گی، جو ملزمان نامزد ہوں گے انھیں گرفتار کیا جائے گا اور عدالت کے ذریعے گاڑی اصل مالک کے حوالے کی جائے گی۔
