سیاست کے سٹیڈیم کو عسکری تالہ بندی سے کیسے بچانا ہوگا؟

سینئر صحافی عادل شاہ زیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاست ذاتی دشمنی میں بدل چکی ہے۔ تحریک انصاف حکومتی اتحاد کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات، ان کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے اور ایسے میں فیک نیوز اور پراپیگنڈے کی بھرمار نے ماحول کو اتنا تلخ بنا دیا ہے کہ ریاست کے اہم معاملات بھی چلانا مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔موجودہ سیاسی گرداب سے نکلنے کا فی الحال جو راستہ نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ حکومت وقت باقاعدہ ایک کمیٹی بنا کر تحریک انصاف سے مذاکرات کا اعلان کرے تاکہ عوام کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ کون ہے جو ملک کو چلنے نہیں دے رہا اور نہ چلنے دے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ عام انتخابات کی شفافیت پر ڈھیر سارے اعتراضات موجود ہیں۔ البتہ 2024 کے انتخابات پر انگلیاں اٹھانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات بھی اتنے ہی متنازع تھے۔ اس وقت بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کے درجنوں امیدواروں کو آر ٹی ایس سسٹم فیل کر کے جتوایا گیا۔صرف اگر کراچی کے نتائج کی بات کریں تو جیتنے والے آج بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں ایسے جتوایا گیا کہ وہ خود بھی حیران تھے۔ پی ٹی آئی کراچی کے جیتنے والے چند رہنما جب عمران خان سے ملنے بنی گالہ آئے تو عمران خان نے ان سے حیرانی میں استفسار کیا کہ آپ بھی جیت گئے۔

مخصوص  نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت 3جون کو ہوگی

عادل شاہ زیب کے مطابق معاملہ یہ ہے کہ جن سے آج زیادتی ہوئی وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 2018 میں کسی کا مینڈیٹ چرا کر انہیں جتوایا گیا اور اقتدار نہ صرف سونپا گیا بلکہ ساڑھے تین سال ان کے لیے حکومت چلائی بھی گئی۔ اس وقت ملک اسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ 2018 میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 2024 میں ان کے حق پر ڈاکا مارا گیا۔ دونوں یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن یہ نہیں مانتے کہ ان کی حمایت میں دوسروں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔

عادل شاہ زیب کے بقول اب وقت آ چکا ہے کہ سیاست سے معیشت تک کچھ ضابطوں اور قوانین پر متفق ہوا جائے اور جس جماعت کے کارکنان اور رہنما اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں انہیں اس کی سزا بھی دی جائے۔ کیونکہ ریاست مادر پدر آزاد نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اپنا بہت نقصان کر لیا ہے۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نیشنل ڈائیلاگ کے لیے تیار نہیں تو پھر آگے بڑھا جائے لیکن غیر یقینی کی اس صورت حال سے ملک کو نکالنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ نواز شریف کو آگے بڑھ کر کم از کم مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ ۔اس کے بعد مذاکرات کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور ان ہی دونوں رہنماؤں کو تحریک انصاف کو مذاکرات پر قائل کرنے کا ٹاسک دیا جائے لیکن اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ پہلے ان دونوں کے ساتھ تو بیٹھا جائے۔صدر آصف علی زرداری بھی مذاکرات میں پہل کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ ملاقات کر کے ان مذاکرات کا ایجنڈا اور وے فارورڈ طے کر سکتے ہیں۔

عادل شاہ زیب کے مطابق اس وقت ان سب سیاسی رہنماؤں کو حکومت اور اقتدار سے ہٹ کر سوچنا ہو گا کہ اس سیاسی جمود کو کیسے توڑا جائے، ورنہ تو سیاسی جماعتوں کے لیے گنجائش مزید گھٹتی جائے گی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی کھلاڑی تو موجود ہوں لیکن گراؤنڈ کو تالا لگ جائے۔

Back to top button