مولانا عمران سے ہاتھ ملائیں گے یا شہباز سے دوستی نبھائیں گے؟

تحریک انصاف کی جانب سے مولانا فضل الرحمن سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے بعد اب حکومت بھی سربراہ جے یوآئی کو رام کرنے کیلئے متحرک ہو چکی ہے۔ جہاں ایک طرف وزیر اعظم شہبازشریف نے خود ملاقات کر کےمولانا کو ان کے تمام تحفظات کے ازالے کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی رات گئے مولانا فضل الرحمان کے ملاقات کی ہے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی حلقوں کا اب تک دعویٰ ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان معاہدے کیلئے مذاکرات جلد شروع ہونے والے ہیں۔ جے یو آئی کی جانب سے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمان اور پی ٹی آئی کی طرف سے اسد قیصر مذاکرات کی قیادت کریں گے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی سے تحریری معاہدہ چاہتے ہیں۔ جس پر عید کے بعد دستخط کا امکان ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکرات کا امکان کم ہے۔ اس لیے بانی پی ٹی آئی نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے اسد قیصر کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ جو جے یو آئی کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ ذرائع کے بقول عمران خان نے سربراہ جے یو آئی کے تحفظات دور کروانے کی یقین دہانی کرادی ہے اور ان کا پیغام مولانا فضل الرحمان تک پہنچا دیا گیا ہے۔

عمران خان نے مولانا نے فضل الرحمن سے مل کر معاملات طے کرنے کیلئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا کہا ہے۔ جو متفقہ حکمت عملی طے کرے گی۔ مذاکرات میں پہلے مرحلے میں احتجاجی تحریک سمیت دیگر نکات پر اتفاق رائے کیا جائے گا۔ جس کے بعد مولانا فضل الرحمان اور عمران خان معاہدے پر دستخط کریں گے۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے مذاکراتی وفد پر واضح کردیا ہے کہ وہ تحریری معاہدے کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ ماضی میں نواز شریف، آصف زرداری اور شہباز شریف نے ان کے ساتھ زبانی معاہدے کیے اور پھر اس سے مکر گئے۔ عمران خان کی رہائی اور حکومت گرانے کیلئے بڑی احتجاجی تحریک کی ضرورت ہے۔ اس لیے تحریری معاہدہ ضروری ہے۔

پی ٹی آئی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاہدے سے عمران خان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اس سے سیاسی نقصان بھی ہو گا، کہ پارٹی کے وہ سوشل میڈیا ورکرز جو گزشتہ 10 برس سے مولانا فضل الرحمان کے خلاف رہے ہیں۔ وہ اس اتحاد کی مخالفت کریں گے۔ابھی بھی وہ اور پی ٹی آئی کے بعض رہنما اس حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم عمران خان کے سامنے کسی کی جرأت نہیں کہ وہ اس کا اظہار کریں۔ کیونکہ اس وقت کارکنان کو یہی بتایا جارہا ہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے مولانا فضل الرحمن سے اتحاد ضروری ہے۔ تاہم جب عمران باہر آئیں گے تو اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔

مذاکراتی عمل کا حصہ رہنے والے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن اس لیے تحریری معاہدہ چاہتے ہیں، کہ عمران خان اکثر اپنا کام نکلنے کے بعد اتحادیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمن عمران خان سے تحریری معاہدے سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس صورت میں سیاسی فائدہ ہو گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی ایک طرف جے یو آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات اور القابات واپس لیں گے اور دوسری جانب اگر حکومت گرائی جاتی ہے یا عمران خان کو احتجاجی تحریک کے ذریعہ رہا کیا جاتا ہے تو پھر مولانا فضل الرحمن کو کتنا حصہ حکومت میں ملے گا، یہ طے کر لیا جائے گا۔تاہم ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی سے شکست کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کو اقتدار سے باہر کرنا قرار دیا جائے گا۔ جس سے پارٹی کو زندہ رکھا جا سکے گا۔ اور دوسری طرف وہ نواز شریف، آصف زرداری سے بے وفائی کا بدلہ بھی لے سکیں گے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی خود کو ایک سیاسی طاقت کے طور پر منوانا چاہتے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کے ان کے گھر آمد کے بعد مولانا تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملائیں یا سابق اتحادی جماعت نون لیگ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کریں؟

Back to top button