9 مئی کے کیسز میں ریلیف دینے والے جج نے ISI پر کیا الزامات لگائے؟

سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمد عباس کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر ڈرانے اور دھمکانے کے الزام کی تحقیقات کا اغاز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ سے ترقی پا کر سپریم کورٹ جانے والے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد نے جج محمد عباس کے الزامات پر مبنی ایک خط کا نوٹس لیتے ہوئے جس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے وہ ہراسانی کے اسی الزام سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے اس جج نے حال ہی میں 9 مئی کے مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے 70 سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو بری کر دیا تھا جن کے خلاف تھانہ سٹی میانوالی میں دو الگ الگ مقدمات درج تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد سخت فیصلہ سنائیں گے کیونکہ انہوں نے اگلے روز اپنے الوداعی خطاب میں بھی آئی ایس آئی کی جانب سے ججوں پر دباؤ ڈالنے کے الزامات کو دہراتے ہوئے اس حرکت کی مذمت کی۔ اس سے پہلے اے ٹی سی سرگودھا کے جج محمد عباس نے آئی ایس آئی کی جانب سے ہراساں کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کو خط ارسال کیا تھا۔ جج کا کہنا تھا کہ "وہ مئی 2024 سے سرگودھا میں تعینات ہیں۔ اُنہیں حال ہی میں پیغام پہنچایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ لوگ اُن سے عدالتی چیمبر میں ملنا چاہتے تھے۔” لیکن اُن کے انکار پر کچھ لوگوں نے اُن کے گھر کے باہر لگے گیس کے میٹر کو توڑ دیا۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اُنہیں واپڈا کی جانب سے بجلی کا اضافی بل بھی بھیجا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی عدالت کے باہر لگے بجلی کے میٹر پر فائرنگ کی گئی جس سے بڑا دھماکہ ہوا۔

اس کیس سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر سرگودھا پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ کا کیا مؤقف ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ یہ انتہائی اہم اور عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ عدالت میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جو انتہائی حساس اور خفیہ ہے۔ یہ رپورٹ تھریٹ الرٹس سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا کہ جوڈیشل افسر نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کی طرف سے میسج آیا ہے کہ آئی ایس آئی کے لوگ اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا پولیس نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے جس نے یہ کہا کہ اُس نے جج سے ملنا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت اُنہیں مؤقف پیش کرنے کا موقع دے۔ پولیس کو سرگودھا کے اُس علاقے کی جیو فینسگ کی ضرورت ہے جہاں جج کو کال ہوئی۔ پولیس کو بندہ ڈھونڈنے کے لیے سی ڈی آر بھی چاہیے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جج کو کال واٹس ایپ پر کی گئی ہے یا کسی اور طریقے سے کال کی گئی ہے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت سے کہا کہ وہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع کے ساتھ پولیس کی کمیٹی بنا دیں۔

اب اوور سیز پاکستانی بیرون ملک بیٹھ کر ہی جائیداد کی خرید و فروخت کر سکیں گے

 

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہر بندے کو قانون کا تحفظ حاصل ہے لہذا اس کیس میں ابھی تک کیا کیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ معاملے کی تحقیق کے لیے یہ کیس انسدادِ دہشت گردی پولیس کو بھجوا دیا ہے۔ آئی جی کے جواب پر چیف جسٹس لاہور ہائی کوٹ نے استفسار کیا کہ پولیس نے ابھی تک کون سا بندہ گرفتار کیا ہے؟ جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ پولیس کو جیو فینسک کی اجازت دے دیں، وہ جیو فینسنگ کر کے عدالت کو رپورٹ دے دیتے ہیں۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سرگودھا اے ٹی سی جج کے گھر کا میٹر بھی توڑ دیا گیا ہے۔ جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ اُنہوں نے چیک کرا لیا ہے۔ پولیس کو اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں ملی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "آئی جی پنجاب صاحب یہ اپ کے بس کا معاملہ نہیں ہے۔ آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ اس کیس میں عدالت کا حکم چاہیے تا کہ وہ وفاقی حکومت سے جیو فنسنگ کی اجازت لیں۔”

دورانِ سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے ڈی پی او سرگودھا سے استفسار کیا کہ ڈی پی او سرگودھا یہ بتائیں کہ کس قانون کے تحت سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس کو بند کیا گیا۔ ڈی پی او سرگودھا نے جواب دیا کہ وہاں تھریٹ الرٹ تھے، پولیس نے سرچ اینڈ سویپ آپریشن کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ کام صرف اس لیے کیا کہ اے ٹی سی جج کے پاس جو کیسَز لگے ہیں وہ ان پر کارروائی نہ کر سکیں۔ اِس موقع پر آئی پنجاب پولیس نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاموش رہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیوں نہ سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس بند کرنے پر پولیس کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔ ڈی پی او سرگودھا نے جواب دیا کہ اے ٹی سی سرگودھا کے حوالے سے سیریس سیکیورٹی تھریٹ تھے اس لیے اڈے وقتی طور پر بند کیا گیا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تھریٹ الرٹ تو پورے پاکستان ہیں پھر سب کچھ بند کر دیں۔ اِس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ "اے ٹی سی جج سرگودھا ایک اچھے جج ہیں۔ اے ٹی سی جج نے عدالت کو لکھے خط میں کہا کہ ان کی حفاظت اللہ نے کرنی ہے۔”

چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ڈی پی او سرگودھا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا حساب تو انہوں نے لینا ہے جنہیں وہ خوش کر رہے ہیں۔ اِس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی پنجاب صاحب عدالتوں کا مذاق نہ بنائیں۔ نو مئی والے بندے اندر ہیں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا کارروائی ہو گئی۔ وہ تو چلیں عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں۔ جو جج پسند نہیں آتا ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع ہو جاتی ہے۔ درخواست آ جاتی ہے پروگرام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اے ٹی سی جج کے خط پر پولیس کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چند نامعلوم افراد نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے باہر لگے بجلی کے ٹرانسفارمر پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں عدالت کے اندر کی بجلی چلی گئی۔ اس معاملے کی گونج پنجاب اسمبلی تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اجلاس سے قبل اسپپکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ‘حادثہ’ ہے۔

Back to top button