پاکستان میں عدالتوں کی بجائے ہجوم کیوں فیصلے کرنے لگے؟

پاکستان میں عدالتوں کی بجائے ہجوم کیوں فیصلے کرنے لگے؟معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ ابھی سرگودھا میں ایک مسیحی بھائی کے قتل کا داغ نہیں دھلا تھا کہ سوات میں ایک سیاح کے زندہ جلائے جانے کے اندوہناک واقعے نے ہمارے ناکام سماج کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ پاکستان وہ معاشرہ بن چکا ہے جہاں شدت پسندوں کے ہجوم فیصلے کرتے ہیں جبکہ عدالتیں خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم ایسی نگری کے باسی ہیں جہاں وقت اپنی رفتار پر ماتم کر رہا ہے اور لفظ نوحہ بن چکے ہیں۔ ہم حادثوں کے عادی ہی نہیں بلکہ حادثوں کے منتظر رہنے لگے ہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ پے در پے سانحات بے حس معاشرے کی علامت اور سفاک سماج کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ آخر حادثے یونہی تو نہیں ہوتے، وقت پرورش کرتا ہے، ریاست کی ناکام پالیسیاں سماج کی ناکامی کا سبب بن چکی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ میں نے اپنی تحریروں میں مسلسل نشاندہی کی کہ ریاست میں موجود فالٹ لائنز مکمل طور پر متحرک ہیں۔ کوئی ایک فالٹ لائن ہو تو بھی اس پر قابو پانا آسان ہو گا مگر یہاں متعدد متحرک مسلسل اور مستقل فالٹ لائنز زلزلوں کا اہتمام کر رہی ہیں۔ تقسیم ان سب مسائل کو نہ صرف قبول کر چکی ہے بلکہ سند کے طور پر گاہے گاہے اظہار بھی کر رہی ہے۔
اب تو اتنا وقت بھی نہیں بچا کہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ قصور کس کا ہے اور سب سے زیادہ حصے دار کون۔ وقت ہی تو نہیں ہے کہ سوچا جا سکے کہ مرض کس قدر بڑھ چکا اور جسم کے کس کس حصے کو متاثر کر چکا ہے۔ لاعلاج مرض تشخیص کے بغیر سرجری کا تقاضا کر رہا ہے، مگر سرجری کرے گا کون؟

بقول عاصمہ شیرازی، ہم لوگ انکار کی حالت سے نکلیں تو تسلیم کریں کہ ہم بطور ریاست ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ سماج ناکام ہو رہا ہے۔ معاشرہ اس قدر تقسیم ہو چکا ہے کہ کسی ایک نکتے پر بھی مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ریاست کی ناکام پالیسیوں نے سرزمین میں ایسی نقب لگائی ہے کہ اب مکین نقیب کے ساتھ ہیں اور گھر ہے کہ لٹا جا رہا ہے۔ ابھی سرگودھا میں مسیحی بھائی کو مارنے کا داغ دھلا نہ تھا کہ سوات میں سیالکوٹ سے گئے سیاح کے جلائے جانے کے اندوہناک واقعے نے ناکام سماج کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ مردار نظام پر بیٹھی گدھیں ہر جگہ گوشت نوچنے کو تیار ہیں، مگر اس فالٹ لائن پر کسی کی نگاہ نہیں۔ عیدِ قربان پر وسطی پنجاب میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف اقدامات ثابت کر رہے ہیں کہ لاقانونیت طاقت پکڑ رہی ہے۔ ہجوم فیصلے کر رہا ہے جبکہ عدالتوں کا انصاف محض سیاسی فیصلوں تک محدود ہو گیا ہے۔ کس کو کہاں گستاخ قرار دے کر مار دیا جائے، یہ لائسنس کس کے ہاتھ لگ جائے، ریاست لاعلم اور عدالتیں اور انتظامیہ آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ بلوچستان شورش زدہ ہے تو پنجاب انتہا پسندی کے دہانے پر۔ سندھ میں لسانی فالٹ لائن تو دوسری جانب خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی سیاسی اور نظریاتی حمایت حاصل کر کے اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے۔ ریاست کے ہر یونٹ میں انتہا پسندی اور تفریق کی بنیاد پر کاروائیاں جاری ہیں۔ خیبر پختون خوا کے صحافی اور سیاسی افراد بخوبی جانتے ہیں اور کبھی نہاں اور کبھی عیاں لفظوں میں بیان کرتے نظر آ رہے ہیں کہ جنوبی اضلاع میں دراصل رِٹ کس کی ہے؟ سوال یہ ہے کہ عسکریت پسندی کو ختم کیا جا سکتا ہے مگر سیاسی حمایت اور جمہوریت کے پہناوے میں نظریاتی وابستگی کا کیا کیا جائے؟ خیبرپختونخوا جس دہانے پر کھڑا ہے اس کا اظہار وہاں کے نمائندہ وزیراعلیٰ گاہے گاہے کرتے رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کا بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت اور واجبات کے لیے آئی ایم ایف شرائط کو تسلیم نہ کرنے کی دھمکی دینا اس خطرے کی نشاندہی ہے، جو خدانخواستہ کسی سانحے کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اگر عوام کو بجلی کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہا ہے جبکہ وفاقی وزیرِ توانائی مدد کا طلب گار ہے تو کیا معنی لیے جائیں؟

Back to top button