پیپلز پارٹی نے شہباز شریف سے کون کون سے مطالبے منوائے ہیں

بجٹ میں عدم مشاورت اور پارٹی اراکین کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے پر شہباز شریف حکومت سے ناراض پیپلز پارٹی تمام مطالبات پورے ہونے کے بعد ایک بار پھر حکومت کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہو چکی ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے شہباز حکومت سے ناراضی کی اصل وجہ کیا تھی اور پیپلز پارٹی حکومت سے اپنے کون کون سے مطالبات منانے میں کامیاب تہی ہے؟

خیال رہے کہ عام انتخابات کے نتائج کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہ تھی کہ وہ اپنی حکومت قائم کر سکے، ایسے میں ن لیگ کے قائد نواز شریف نے شہباز شریف کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا ٹاسک دیا تھا جس کے بعد شہباز شریف  پی پی پی، ایم کیو ایم، ق لیگ، آئی پی پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے، تاہم حکمراں اتحاد کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے وزارتیں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم حکومت کو مکمل سپورٹ فراہم کرینگے۔ تاہم بعد ازاں پیپلز پارٹی کو ایک معاہدے کے تحت صدارت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی سپیکر سمیت مختلف عہدے دئیے گئے۔

شہباز حکومت لڑکھڑاتے ہوئے چل رہی تھی تاہم جیسے ہی وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجٹ میں ٹیکسز بڑھائے تو اس پر اتحادیوں نے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی نے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا تاہم بعد ازاں لیگی قیادت کے کہنے پر پیپلز پارٹی اجلاس میں علامتی شرکت پر تیار ہو گئی تاہم اپنے مطالبات کی منظوری تک حکومت کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا، ایک وقت تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے پیپلز پارٹی کے احتجاج کے باعث شاید بجٹ کی منظوری مشکل ہو جائے، تاہم 2 سے 3 ملاقاتوں میں حکومت نے پیپلز پارٹی کو مناتے ہوئے ان کے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔

مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے، جنوبی پنجاب کا انتظامی کنٹرول پیپلز پارٹی کو دینے، لا آفیسر کی تقرریوں، مختلف بورڈز اور اتھارٹیز میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی سمیت بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ کیا تھا۔بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی ارکان پارلیمنٹ کو مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ کے برابر ترقیاتی فنڈز فراہم کیے جائیں، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں پیپلزپارٹی کے مسائل کوحل کرنے کے لیے ایک ایڈیشنل سیکریٹری تعینات کیا جائے۔پیپلز پارٹی کا پنجاب کے انتظامی کنٹرول کے حوالے سے مطالبہ تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے حمایت والے 12 اضلاع ملتان، مظفر گڑھ، رحیم یارخان، راولپنڈی، راجن پور میں ڈپٹی کمشنرز، ضلعی پولیس اور ریونیو افسروں کا تقرر پیپلز پارٹی کی مشاورت سے کیا جائے۔

پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات اب کامیاب ہو چکے ہیں اور حکومت نے پیپلز پارٹی کے تمام مطالبات مان لیے ہیں، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ اجلاس سے خطاب بھی کر دیا ہے اورپیپلز پارٹی نے بجٹ منظوری میں حکومت کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے۔اب بجٹ کی منظوری میں حکومت کو کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ (ن) سے صلح ہوگئی ہے۔ میڈیا والے پیچھے رہ گئے ہیں، نیوز نہیں بناسکے۔اُن کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کردیے ہیں، ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں، ان کی مدد کر رہے ہیں، معاشی صورت حال کو کنٹرول کرنے کےلیے کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ حکومت مضبوط ہو

Back to top button