پی ٹی آئی طالبان مخالف آپریشن کی راہ میں رکاوٹ کیوں بن گئی؟

شہباز حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف ‘عزمِ استحکام’ کے نام سے اعلان کردہ آپریشن کے خدوخال تاحال واضح نہیں ہیں مگر پی ٹی آئی۔جے یو آئی سمیت خیبر پختونخوا کی سیاسی و سماجی تنظمیوں اور قبائلی رہنماؤں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتیں آپریشن عزم استحکام کے نام پر صرف سیاست سیاست کھیل رہی ہیں حالانکہ آپریشن عزم استحکام کے نام سے نہ تو کوئی بڑی فوجی کارروائی ہونے جا رہی ہے اور نہ ہی لوگوں کو کسی خاص علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے،آپریشن عزم استحکام کے تحت وہی ٹارگٹڈ کارروائیاں ہونگی جو پہلے سے ہی جاری ہیں تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ دہشتگردوں اور شدت پسندوں کیخلاف ان ٹارگٹڈ کارروائیوں کو آپریشن عزم استحکام کا نام دے دیا گیا ہے جس پر اپوزیشن نے واویلا مچا رکھا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف’عزمِ استحکام’ آپریشن کا اعلان ہوتے ہی اس کے خلاف روایتی قبائلی جرگوں، جلسے جلوسوں اور احتجاجی دھرنوں کے اعلانات بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔پشتون تحفظ تحریک یعنی پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام ہفتے کو ہی جنوبی وزیرستان سے ملحقہ قصبے رزمک میں ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں خیبر پختونخوا کے کسی بھی علاقے میں فوجی کارروائی کی نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ مزاحمت کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے علاوہ مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی سمیت قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی نے مجوزہ فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کی ہے۔

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی، مذہبی و مقامی جماعتیں شدت پسندوں اور دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں؟خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کے مطابق ملک میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو اقدامات اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ مگر ان اقدامات سے قبل حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن ‘عزمِ استحکام’ کی مخالفت کی وجہ ماضی میں ہونے والی فوجی کارروائیوں میں عام لوگوں کو پہنچنے والی مشکلات سے ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘آپریشن ضربِ عضب’ سمیت کئی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنا پڑی اور اب مزید کوئی بھی گھر بار چھوڑ کر یا نقل مکانی کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کو ‘عزمِ استحکام’ کی وضاحت کرنی چاہیے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم آفس نےایک اعلامیے میں وضاحت کی ہےکہ گزشتہ مسلح آپریشنز ملک کے نو گو علاقوں میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کے لیے تھے۔ تاہم اس وقت ملک میں ایسے کوئی علاقے نہیں۔ البتہ ‘عزمِ استحکام’ کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جینس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔تاہم وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے مطابق آپریشن ‘عزمِ استحکام’ پر ایوان میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا اورپی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی تشویش کو ضرور دور کیا جائے گا۔وزیرِ دفاع نے ‘عزمِ استحکام’ کی نوعیت نہیں بتائی۔ البتہ انہوں نے بتایا کہ یہ آپریشن خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو گا۔

تاہم سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ حکومتی اداروں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے باعث اب عوام کا آپریشن یا فوجی کارروائیوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ان کے بقول آپریشن ضرب عضب سمیت ہر فوجی کارروائی کے بعد حکومت نے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے دعوے کیے مگر درحقیقت ہر آپریشن کے بعد عسکریت پسندوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی نئی فوجی کارروائی کے شروع کرنے سے قبل حکومت کو نہ صرف ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا بلکہ یہ بھی بتانا ہوگا کہ کن بنیادوں خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا اضافہ ہوا ہے۔مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ ‘عزمِ استحکام’ کے اعلان نے حزبِ اختلاف اور خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے بغیر وفاقی حکومت یا فوج کے لیے ‘عزمِ استحکام’ آپریشن شروع کرنا یا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔

Back to top button