مریم PPP کو ناراض کر کے چچا شہباز کے لیے مشکل پیدا کرنے لگیں

حال ہی میں وفاقی بجٹ کے موقع پر پیپلز پارٹی کی ناراضی کے بعد بظاہر وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو کو منا تو لیا ہے لیکن وزیراعلی مریم نواز کی جانب سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اقتدار میں حصہ نہ دینے کے واضح اعلان کے بعد اب یہ خدشہ ہے کہ دونوں جماعتوں کا اتحاد وفاق میں ایک مرتبہ ہھر بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی خصوصی کمیٹی کے کئی اجلاسوں اور دونوں طرف سے دوستی کے اعلانات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) اور اس کی غیر متزلزل اتحادی پی پی پی نے اب بھی ناراض یے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مریم نواز نہ تو پیپلز پارٹی کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا رہی ہیں اور نہ ہی پنجاب سے منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے حضرات کے کہنے پر پولیس اور سول بیوروکریسی میں پوسٹنگز اور ٹرانسفرز کرنے پر آمادہ ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر، علی حیدر گیلانی نے بتایا یے کہ تحریری معاہدے کے باوجود، مسلم لیگ (ن) دونوں جماعتوں کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی حکومتوں کو اپنی حمایت دینے کے بدلے حکمرانی میں زیادہ سے زیادہ کردار کی خواہاں ہے۔ لیکن جاتی امرا کی مریم اپنے چچا اور پیپلز پارٹی کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔ وزیراعلی پنجاب کا موقف ہے کہ وہ پوسٹنگز اور ٹرانسفرز میں کسی بھی قسم کی سفارش نہیں مانیں گی اور کابینہ بھی چھوٹی ہی رکھیں گی۔

دوسری جانب علی حیدر گیلانی بتاتے ہیں کہ دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین ہونے والے حالیہ تحریری معاہدے کے تحت، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دو اضلاع – ملتان اور رحیم یار خان میں اہم انتظامی فیصلوں اور ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کے لیے پی پی پی کو آن بورڈ لینا ہو گا کیوں کہ وہاں پی پی پی کے پاس زیادہ قانون ساز ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے پی پی پی قیادت کو معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ انکے مطابق ہمیں یہاں تک بتایا گیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف دونوں معاہدے پر عمل درآمد کے حامی ہیں۔ یاد ریے کہ گیلانی جونیئر پی پی پی کی جانب سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔

اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کی مذاکراتی کمیٹی کے آخری اجلاس میں اسحاق ڈار، پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک احمد خان، مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق اور پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ اور علی حیدر گیلانی نے شرکت کی تھی۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو صوبے میں ترقیاتی سکیموں میں حصہ دیا جائے گا اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے حلقوں میں تبادلوں اور تعیناتیوں میں بھی حصہ لیا جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پیپلز پارٹی کے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔

لیکن علی حیدر گیلانی کے مطابق عملی طور پر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے وعدوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم یہ دھوکہ بازی پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ دوبارہ اٹھائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، وزیر اعلیٰ مریم نواز پی پی پی سے کیے گے وعدوں کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہتھکنڈے مسلم لیگ (ن) کے ’پہلے سے طے شدہ ہتھکنڈوں‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ کیا واقعی مریم نواز کا رویہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہا ہے تو علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ "وزیراعلیٰ کو اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت بشمول شہباز شریف اور نواز شریف کو صسف بتا دینا چاہیے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے متفقہ فیصلوں پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں”، خاص طور پر جنوب کے تناظر میں۔

اس معاملے پر جب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز "میرٹ پر مبنی پالیسی” پر عمل پیرا ہیں اور وہ انتظامی معاملات، خاص طور پر تقرریوں اور تبادلوں میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت برداشت نہیں کریں گی۔ان کا کہنا تھا کہ جب ن لیگ کے تقریباً 200 قانون سازوں کو تقرریوں اور تبادلوں میں کوئی اہمیت نہیں ملتی تو پی پی پی پنجاب میں اپنے 10 ایم پی اے کے ساتھ اس طرح کا مطالبہ کیسے کر سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب "سفارش اور بدعنوانی کے کلچر” کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور میرٹ پر مبنی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پی پی پی کو اپنے نام نہاد انتظامی حصے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بجائے اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ بلا مشروط تعاون کرنا چاہیے۔

Back to top button