مولانا نے پاکستان میں طالبان جیسی امارت اسلامی بنانے کا شوشہ کیوں چھوڑا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف پاکستانی زمین پر طالبان طرز کی امارت اسلامی بنانے کی تجویز دینے پر سخت کارروائی کرے۔ اپنے تازہ تجزیے میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ 22 جون کو ایپکس کمیٹی نے ملک کے شمال اور جنوب میں تحریک طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیش نظر آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا۔ 25جون کو وفاقی کابینہ نے بھی اس فیصلے کی منظوری دے دی۔ اس کے فوراً بعد تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام سمیت کچھ قوم پرست جماعتوں اور گروہوں نے خیبر پختونخوا میں جرگے شروع کر دیے۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان نے یہ عجیب و غریب مطالبہ کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں بھی طالبان طرز کی امارت اسلامی قائم کر دی جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے تحریک انصاف کے راستے پر چلتے ہوئے طالبان کی حمایت اس لیے کی جا رہی ہے کہ ان کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں مولانا فضل الرحمن پر طالبان دہشت گردوں کی جانب سے کئی خودکش حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ ناکام رہے۔ مولانا 20 ستمبر 2020 ء

وجاہت مسعود یاد دلاتے ہیں کہ ایک وقت میں مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ عمران خان کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم حکومت کے خلاف چلنے کی بات کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ 2023 ء کے اواخر تک مولانا کی جماعت پر پے در پے دہشت گرد حملے ہو رہے تھے۔ جولائی 2023ء میں باجوڑ کے ایک جلسے پر حملے میں 50 کے قریب سیاسی کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔ 31 دسمبر 2023 ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب مولانا کے قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی۔ وجاہت کہتے ہیں چونکہ انہیں مولانا فضل الرحمن کے کچھ حالیہ ارشادات پر تنقید کرنا ہے چنانچہ مناسب معلوم ہے کہ انکی شخصیت کا مختصر خلاصہ پیش کر دیا جائے۔

وجاہت مسعود کے مچابق مولانا فضل الرحمن اکتوبر1980 ء میں اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد 27 برس کی عمر میں جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری مقرر ہوئے تھے اور اسی برس اپنی جماعت کے ایک دھڑے کے سربراہ بن گئے۔ 6فروری 1981 ء کو تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی قائم ہوئی تو مولانا فضل الرحمن اس کا حصہ تھے۔ قومی اتحاد سے بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد تک اس سفر سے مولانا کی سیاسی قامت میں اضافہ ہوا۔ مولانا نے پشاور یونیورسٹی اور مصر کی الازہر یونیورسٹی سے رسمی تعلیمی اسناد کہیں بعد میں حاصل کیں۔ اسلم بیگ اور حمید گل نے آئی جے آئی بنائی تو مولانا فضل الرحمن دائیں بازو کے اس اتحاد سے الگ رہے بلکہ انہوں نے عہدہ صدارت کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان کی حمایت کرکے اسلم بیگ صاحب سے ناقابل اشاعت الفاظ میں گوشمالی بھی کروائی۔ 2002 ء میں مشرف کے زیر سایہ وجود میں آنے والی اسمبلی میں مولانا وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے اور محض ایک ووٹ سے یہ انتخاب ہارے۔ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے فوجی آمر جنرل مشرف کے غیر آئینی لیگل فریم ورک آرڈر کی حمایت کرنے والے مولانا فضل الرحمن کی 2022 میں عمران مخالف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جنرل قمر باجوہ سے تلخ کلامی تو ابھی کل کی بات ہے۔ سال 2010ء میں وکی لیکس سے معلوم ہوا کہ مولانا موصوف نے 2007 ء میں پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن کو ایک ڈنر دیا تھا ۔ امریکی سفارت کار کے مطابق مولانا نے اس ملاقات میں امریکی سفیر سے وزیر اعظم بننے میں مدد مانگی تھی۔ امریکی سفیر کے مطابق غفور حیدری نے اس موقع پر تسلیم کیا تھا کہ پاکستان میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کو امریکی حکومت سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ اتفاق سے یہ عین وہی وقت تھا جب مولانا ایم ایم اے کے ذریعے سرحد اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کر کے پرویز مشرف کی دوسری مدت صدارت کی راہ ہموار کر رہے تھے۔

وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ 2022 میں طالبان نے دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کابل پر قبضہ کر لیا تو ٹی ٹی پی کے لیے افغانستان محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔ اس دوران تحریک انصاف ہزاروں دہشت گردوں کو پاکستان واپس لائی۔ نتیجہ یہ ہے کہ 2022ء کی نسبت 2023 ءمیں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں67 فیصد اضافہ ہوا۔ تقریباً ایک ہزار حملوں میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ طالبان نے نومبر 2022 ء میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی ختم کی تو جنوری 2023ء میں پشاور کی ایک مسجد پر حملے میں سو سے زائد شہری شہید ہوئے۔ 2024ء کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر تین سو سے زائد حملے ہوئے۔ 7فروری 2024ء کو پشین اور قلعہ سیف اللہ میں 28معصوم پاکستانی شہید ہوئے۔ دسمبر 2023ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجی جوان شہید ہوئے۔7 مئی 2024 ء کو ایک حملے میں پانچ چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ چین واحد ملک ہے جس نے طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں نیز ایران، بھارت اور ترکی افغان حکومت کے ساتھ گہرے رابطے میں ہیں۔ گزشتہ افغان حکومتوں کی طرح طالبان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ پاکستانی افواج افغان علاقے میں دہشت گرد پناہ گاہوں پر حملہ کر چکی ہیں اور خواجہ آصف اب بھی اس امکان کو رد نہیں کرتے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ایسے میں مولانا فضل الرحمن نے دو نہایت خطرناک بیان دیے ہیں۔ دِیر میں کہا کہ ہم سارے پاکستان کو ’امارت اسلامی‘ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا قرارداد مقاصد کا منطقی تقاضا ہے۔ پشاور کے جرگے میں فرمایا کہ وہ چند روز میں جنوبی خیبر پختونخوا میں ’امارت اسلامی‘ قائم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مولانا کو تو پاکستان کی سرزمین پر ’امارت اسلامی‘ کے گمراہ کن نمونے کے تصور ہی پر تڑپ اٹھنا چاہیے تھا۔ یہ تو نرم ترین لفظوں میں کھلی پاکستان دشمنی ہے۔ قرارداد مقاصد کا ’امارت اسلامی‘ جیسے فرسودہ تصور سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کی زمین کا ایک انچ ٹکڑا کسی برخود غلط گروہ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جرأت تو 1971 ء میں مکتی باہنی کو نہیں ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن ہمسایہ ملک ایرانی حکومت اور افغانستان پر قابض گروہ کو مساوی حیثیت دے رہے ہیں۔ ایران کی خودمختار قومی ریاست پاکستانی سرحدوں کا احترام کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان کی زمین پر امارت اسلامی کا شوشہ چھوڑ کر قومی سلامتی کو شدید زک پہنچائی ہے۔ یہ سیاسی اظہار کی آزادی نہیں بلکہ ہمارے دستور کی بدترین توہین ہے۔ ریاست پاکستان کو مولانا کے خلاف سخت ترین کاروائی کرتے ہوئے ان سے سوال کرنا چاہیے کہ عزم استحکام کی مخالفت ان کا جمہوری حق ہو سکتا ہے، لیکن پاکستان کو ’امارت اسلامی‘ کے خواب پریشان میں بدلنے کا حق انہیں کس نے دیا ہے؟

Back to top button