شہباز حکومت بجلی کے بلوں کی آڑ میں عوام کو کیسے لوٹ رہی ہے

حکومت پاکستان بجلی کے بلوں کی  آڑ میں عوام کے ساتھ جو سنگین زیادتی کر رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی کے بِل میں 200 یونٹ استعمال کرنے پر صارف کا بِل 3000 روپے روپے تک آتا ہے لیکن اگر صارف صرف ایک یونٹ بھی ذیادہ استعمال کرے اور اسکے یونٹ 200 سے بڑھ کر 201 ہو جائیں تو اسی بِل میں 5000 روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اسے 3000 روپے کی بجائے 9000 روپے کا بِل ادا کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت بجلی کے بِلوں میں فی یونٹ کے حساب سے اضافے پر سوشل میڈیا پر زبردست بحث چِھڑی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اس تمام تر بحث کی بنیاد حکومت کی جانب سے 200 یونٹس تک کی سلیب میں صرف ایک یونٹ کے اضافے کے بعد پروٹیکڈڈ صارفین کے زمرے سے نکل جانے کے بعد بجلی کے اضافی بِلوں کو بتاتے ہیں۔ ایکس اور دیگر سوشل میڈیا سائیٹس پر زیادہ تر پاکستانی بجلی کے یونٹ گنتے نظر آرہے ہیں۔ اور اس کی وجہ حالیہ مہینوں میں ان یونٹس پر عائد کیے جانے والی اضافی رقم ہے۔ عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔ مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا بلکہ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اب عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اب تو بجلی کے اضافی بِل آنے پر خود پارلیمان کے ارکان بھی تنقید کررہے ہیں۔ اس بحث کے نتیجے میں چند بنیادی سوالات نے جنم لیا ہے جن کا بی بی سی

نے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان نے پارٹی چھوڑنے والے رہنماؤں کی واپسی روک دی

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور صرف ایک یونٹ کے اضافے سے بجلی کے بِل تین گنا تک بڑھ جاتے ہیں۔  اب سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ صرف ایک یونٹ کے اضافے سے بجلی کے بِل میں خاطر خوا اضافے کی وجہ کیا ہے؟اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مطابق بجلی استعمال کرنے والوں کو مختلف سلیبز اور کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے اور اس ہی حساب سے ان کا بجلی کا بِل آتا ہے۔

ان میں گھریلو، کمرشل، صنعتی، زراعت، ریلوے اور پبلک بجلی استعمال کرنے والے صارف شامل ہیں۔

بی بی سی کے مطابق پاور ڈویژن کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وہی گھسا پٹا موقف اختیار کیا کہ ’اس وقت گھریلو صارفین کے بجلی کے بِلوں میں 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر جو بحث چل رہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ بِل اسی حساب سے پچھلے دو سالوں سے آرہا ہے۔ ایک حکومتی ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 200 یونٹ تک کا بِل زیادہ تر ان افراد کا آتا ہے جن کے گھر میں ایک بتی، دو پنکھے ہوتے ہیں اور جو فرج یا فریزر استعمال نہیں کر سکتے۔ ایسے افراد ہمارے غریب طبقے میں شامل ہوتے ہیں۔ اور ان کا بِل بھی اسی حساب سے آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ افراد جو 200 سے اوپر یونٹ استعمال کرتے ہیں، ایک سو ایک کلو واٹ تک، ان کے گھر میں تین پنکھے، ایک کُولر، موٹر ہوتی ہے، تو ہم نے اپنی ورکنگ اس حساب سے کی ہوئی ہے۔ اور انھیں یونٹ کے استعمال کے حساب سے ان صارفین کا بِل آتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سِنگل فیز میٹر کنکشن پر 75 روپے فی کنزیومر ہر ماہ چارج لگتا ہے۔ اور سِنگل فیز صارفین کے لیے حکومت نے سلیبز دیے ہیں۔ جبکہ تھری فیز میٹر کنکشن رکھنے والوں پر 150 روپے فی کنزیومر ہر ماہ چارج لگتا ہے اور تھری فیز کنکشن رکھنے والے کسی سلیب کے اندر نہیں آتے۔‘

حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ فیول کی مد میں کیا جارہا ہے۔ کیونکہ کچھ ایڈجسمنٹ ماہانہ ہوتی ہیں، کچھ تین ماہ میں کی جاتی ہیں اور کچھ سالانہ ہوتی ہیں۔ اور یہ ایڈجسمنٹ کرنا ضروری ہے۔ فیول کی عالمی قیمت کا اثر ہماری بجلی پر سرچارج کی صورت میں لگتا ہے۔‘ ایسے میں سوال یہ یے کہ کیا بجلی کا استعمال 200 یونٹ تک محدود کرنا ممکن ہے؟

سابق ریڈر سیکریٹری پلاننگ اور ممبر نیپرا فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ ’اب ہر گھر میں کُولر یا اے سی چلتا ہے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ بجلی کے استعمال کو 200 یونٹ تک نہیں محدود کیا جا سکتا کیونکہ ہماری کھپت بڑھ جاتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ 200 یونٹ دراصل ’ملک کے غریب ترین طبقے کے لیے ہیں اور حکومت ان کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت پر سبسڈی دیتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’دو پنکھوں اور چند لائٹس کے استعمال پر ہی مہینے میں 200 یونٹ پورے ہو جاتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ آپ اپنا استعمال دو سو یونٹس تک محدود رکھیں کچھ مشکل ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پروٹیکڈ صارفین کو 200 یونٹ تک استعمال کرنے پر دی جانے والی سبسڈی 200 یونٹس سے زیادہ استعمال کرنے والے صارفین سے لی جاتی ہے۔

دوسری جانب جبکہ بجلی کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار عامر راؤ نے بتایا کہ ’100 سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کا ریٹ الگ ہوتا ہے۔ پھر 200 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کا الگ۔ جو لوگ لگاتار چھ ماہ تک 200 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ پروٹیکٹڈ یا محفوظ کیٹگری میں آجاتے ہیں اور ان کو سرکار کی طرف سے رعایت ملتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جو افراد دو سو یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ ان پروٹیکٹڈ کیٹگری میں شامل ہوتے ہیں اور ان کے بِلوں میں سرچارج یا اضافی ٹیکس لگ جاتا ہے جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی۔‘ انکا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کا بل ادا کرنے والے عام صارفین کو مختلف ہتھکنڈوں سے لوٹنے کی بجائے چوری شدہ بجلی کی روک تھام کرے، اور ان پیسوں کی ریکوری کرے جو پاور پلانٹس لگانے کے بعد سے پورے نہیں ہو پارہے ہیں۔

Back to top button