عمران کو انتہا پسند پیچھے اور مفاہمت پسند آگے کیوں کرنا ہوں گے؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حق میں فیصلہ آ جانے کے بعد عمران خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے انتقام اور تشدد کی بجائے مفاہمت اور درگزر کی پالیسی اہنانی چاہیئے کیونکہ 9 مئی کے واقعات نے پہلے ہی کافی نقصان کر دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی بہترین حکمت عملی مفاہمانہ ہو گی۔ فتح مکہ سے سیکھ کر چلیں، مخالفوں کو بھی عزت دیں، انتقام کی جو بھی بات کرے اسے روکیں۔ وہ لوگ جنہوں نے گالیاں اور دشنام وطیرہ بنا لیا ہے، وہ کل کو اپنی عادت کے تحت خود عمران کو بھی گالیاں نکالا کریں گے۔ آج بھی عمران پر سخت وقت انہی شکروں کی وجہ سے آیا ہوا ہے اور اگر یہی شکرے تحریک انصاف کے ہجوم کی نفسیات سے کھیلتے رہے تو پی ٹی آئی جیت کر بھی ہار جائے گی۔ فتح کی نفسیات معاف کرنا ہے، جبکہ شکست کی نفسیات انتقام اور نفرت ہے۔ لہازا شکست اور جارحیت سے نکل کر تدبر اور مفاہمت کی طرف چلنا ہی عمران خان کے لیے بہترین حکمت عملی ہوگی۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت میں شکرے اور فاختائیں دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، پارٹی لیڈر حکمت عملی کے تحت کبھی شکروں کو آگے کرکے جارحانہ رنگ اختیار کرتا ہے اور کبھی فاختائوں کو آگے کرکے مفاہمانہ تاثر دیتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف اس حوالے سے کافی مختلف رہی ہے، جب سے عمران خان مقبول ہوئے ہیں وہ مسلسل شکروں کے حصار میں خوش ہیں، فاختائیں ان کے پارٹی اجلاسوں میں دب کر رہتی ہیں مگر عمران کے جیل جانے کے بعد سے بھی پارٹی کے اندر دو آرا رہیں ۔ شکرے کہتے رہے الیکشن کا بائیکاٹ کریں، قومی اسمبلی میں نہ بیٹھیں، دھرنے دیں، جلوس نکالیں اور ہر چیز تہس نہس کردیں، لیکن فاختائوں نے رائے دی کہ الیکشن میں حصہ لینا ہی بہتر ہوگا۔ ان کا مشورہ تھا کہ بائیکاٹ، دھرنے اور جلوس نکالنے کی بجائے آئینی اور قانونی جدوجہد کی جائے۔ عمران نے باوجود دوسری طرف کی رائے کی شدت کے فاختائوں کی رائے کو تسلیم کیا۔ شکرے کہتے رہے سپریم کورٹ سے ہمیں انصاف نہیں ملے گا اور قومی اسمبلی میں بیٹھنے اور حلف اٹھانے کا مطلب انتخابات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ شکرے کان بھرتے تھے کہ فاختائیں کمپرومائزڈ ہیں یہ سب  فوج کے ایجنٹ ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حسلیہ مخصوص نشستوں کے فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ فاختائوں کے دلائل درست تھے، اسی نظام کے اندر انہیں انصاف مل گیا، یوں فاختائیں جیت گئیں اور شکرے ہار گئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سید علی ظفر، بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، عمر ایوب اور وکلا سلمان اکرم راجہ اور سلمان صفدر نے مشکل ترین حالات میں آئین، قانون اور پرامن جدوجہد سے فتح حاصل کرلی ۔اگر شکروں اور یوٹیوبرز کے مشورے پر چلا جاتا تو آج پارٹی کی باقی قیادت بھی جیلوں میں ہوتی، فیصلے بھی ان کے حق میں نہ آ رہے تھے جو ریلیف اور سپورٹ مل رہی ہے وہ بھی نہ ملتی۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ بھی فاختائوں کی پالیسی چلے گی یا پھر شکرے پارٹی کو جارحیت کی طرف دھکیل دیں گے؟اصل میں ہر مقبول لیڈر کو جارحیت کے مشورے اچھے لگتے ہیں اور پھر وہ اپنے ارد گرد بھی ایسے ہی لوگ اکٹھے کرلیتا ہے جو اس کی پسند کے مشورے دیتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کے ہجوم اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ ہجوم کی نفسیات کے تحت اپنی ذاتی نفسیات کو بھول کر اجتماعی نفسیات کے تحت عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے ایک ایسا شخص جس نے کبھی زندگی میں پتھر تک نہیں اٹھایا جب ہجوم میں شامل ہوگا تو وہ بھئ تشدد پر اتر آئے گا، اپنی انفرادی زندگی میں وہ پُر امن شہری ہوگا مگر ہجوم میں وہ انتہا پسندی میں سب سے آگے ہوگا۔ 9 مئی کا واقعہ ہو یا تشدد و تخریب کے دوسرے واقعات ان میں ہجوم کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے اور جب کوئی ایک شخص کنکر پھینکتا ہے یا آگ لگاتا ہے تو ہجوم میں سے بہت سے ایسے جنہوں نے کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ہوتی وہ آگ پر تیل پھینکنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف میں جوش اس قدر زیادہ ہے کہ ہوش کی بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ اب جبکہ انہیں قانونی جنگ میں اتنی بڑی فتح ملی ہے اب ہوش کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

بیرسٹرگوہر نے ایڈہاک ججز کی تقرری کی مخالفت کردی

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شکرے نئے سرے سے صف بندی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ گرتی ہوئی دیوار کو بس دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ اب نہ فوج اور نہ ہی حکومت ان کا راستہ روک سکتی ہیں، اب اقتدار کا پکا پکایا پھل ان کی گود میں گرنے ہی والا ہے۔ لیکن مناسب سوچ یہ ہوگی کہ تحریک انصاف کو عدالتی فیصلے کے بعد بھی فوج اور سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ اور مفاہمت کا راستہ کھولے۔ پی ٹی آئی ملک کی ایک مقبول جماعت تو ہے مگر وہ پورا پاکستان نہیں ہے ۔یہاں اپوزیشن بھی ہے اور فوج کا بھی ریاست میں بہت بڑا سٹیک ہے ۔ان قوتوں سے لڑ کر اور انہیں ہرا کر فتح یاب ہونے کے لئے ایک لمبی جدوجہد درکار ہوگی۔ شارٹ کٹ راستہ مفاہمت، صلح صفائی، معاف کرو اور بھول جائو والا ہی ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول پی ٹی ائی کی فاختائیں پارٹی کو 9 مئی کی خطرناک کھائی سے نکال کر 8 فروری کے کھلے میدان میں لائیں اور اب اس میدان میں انہیں برتری بھی دلا دی۔ اگر اب بھینشکروں کو فری ہینڈ ملا اور ان کی دوبارہ سنی گئی تو یہ عمران اور انکی جماعت کو پھر سے 9 مئی جیسی کسی اور خوفناک گھاٹی میں گرا دیں گے۔ حقائق سے مکمل کٹے ہوئے بیرون ملک بیٹھے تبصرہ نگار، اور ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا کے نام نہاد انقلابی جوش، لڑائی، اور گالی گلوچ کے علاوہ کسی حکمت عملی پر نہ یقین رکھتے اور نہ اسے مانتے ہیں۔ انہی میں سے وہ بھی تھے جو 9 مئی کی طرف دھکیلنے والے تھے اور اگر انہیں پھر موقع ملا تو انتہا پسندی اور فسطائیت کے وہ رویے اختیار کریں گے کہ ان کی پارٹی کے حامی بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے۔ یہ شکرے چائے کی پیالی میں انقلاب لا کر اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو کوچہ و بازار میں پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی فوج سے بدلہ لینے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی ججوں سے نمٹنے کا عزم کرتے ہیں، یہ کبھی اختلاف رکھنے والے میڈیا کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی ان کا مذاق اڑا کر ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کوئی حادثہ نہ ہوا تو حالات تحریک انصاف کو اقتدار میں دوبارہ لانے کی طرف تیزی سے رواں دواں ہیں، لیکن انتقام کا یہ جذبہ، بدلے کی باتیں کہیں حالات کے دھارے کو موڑ نہ دیں، کہیں تحریک انصاف کے مخالف اکٹھے ہو کر ان سے فیصلہ کن جنگ پرنہ اتر آئیں۔ جب انہیں انتقام اور بدلے کا خوف ہوگا تو وہ تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔ ہوسکتا ہے اس میں تحریک انصاف کے مخالف ہار جائیں اور تحریک انصاف جیت جائے لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے مخالف جاتے جاتے اسے ایسا زخم لگا جائیں کہ وہ کبھی سنبھل ہی نہ سکے۔

Back to top button