پی ٹی آئی پرپابندی کی دھمکی کے بعد حکومت مذاکرات کیوں حاہتی ہے؟

تحریک انصاف کو ملک اور ریاست دشمن قرار دے کر پابندی لگانے کا اعلان کرنے والی شہباز حکومت نے اب ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ مذاکرات کی اِس پیشکش کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو لے کر حکومتی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا پی ٹی آئی کی حکمت عملی نے حکومت کو بیک فُٹ پر جانے پر مجبور کر دیا ہے؟

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے حالیہ دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بانی پی ٹی آئی اور اُن کی جماعت کے لیے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔تاہم اب وفاقی حکومت نے ایک بار پھر تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔

وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے سنیچر کو ایک پریس کانفرنس میں حکومت کی طرف سے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی۔انھوں نے ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا کہ ’ہم کہتے ہیں بات کریں، آپ کہتے ہیں دھرنا کریں۔ ہم کہتے ہیں کہ آئیں، بیٹھیں، سلجھائیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ملک گیر پہیہ جام کریں گے۔‘حکومتی وزیر نے پی ٹی آئی کو پیغام دیا کہ ’بات کرو، برباد مت کرو، سلجھاؤ، الجھاؤ مت۔ ہم دوبارہ آپ کو کہتے ہیں کہ آئیے بات کریں۔‘تجزیہ کاروں کے مطابق مصدق ملک کی پریس کانفرنس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے پیغام کے جواب میں یہ کہا ہے کہ ’ہم مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ سیاسی جماعتیں آپس میں ہی معاملات طے کریں۔‘

جہاں ایک طرف حکومت نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے وہیں اتوار کو پاکستان تحریکِ انصاف نے اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری کا ایک برس مکمل ہونے پر پانچ اگست کو ملک بھر میں جلسے اور احتجاجی مظاہرے کریں گے۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں حکومت کے پاس تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے یا اُن کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ اُن کے خیال میں اس وقت حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہونے کے بھی کوئی امکانات نہیں ہیں۔ کیونکہ دونوں طرف سے مذاکرات کے لیے سنجیدگی ہی نہیں دکھائی جا رہی۔

حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی اور پھر دوبارہ مذاکرات کی دعوت دینے کے معاملے پر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ بظاہر وفاقی حکومت کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں ’کنفیوز‘ نظر آتی ہے۔ ایک وزیر پریس کانفرنس میں کہتا ہے کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی لگائیں گے جبکہ دوسرا انہیں مزاکرات کی دعوت دے دیتا ہے۔دونوں فیصلوں کے اٹل ہونے کا اس صورت میں پتا چلے گا جب حکومت پابندی کا مذاکرات کا باضابطہ اعلان کرے گی یا وزیراعظم خود اس معاملے پر گفتگو کریں گے یا پھر کابینہ اجلاس میں اس ہر گفتگو کی جائے گی۔ تاہم ابھی تک کی پیشرفت میں دونوں چیزیں نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ حکومت اس وقت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس معاملے پر اتحادی جماعتوں کا متفق نہ ہونا اور پھر پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنا حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ حکومت اگر مذاکرات کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اُسے پہلے ایک سازگار ماحول بھی بنانا ہو گا۔اُن کے خیال میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پابند سلاسل ہو گی اور نئی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی تو اس صورتحال میں مخالف جماعت مذاکرات پر متفق نہیں ہو گی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ واقعی مذاکرات چاہتی ہے تو پریس کانفرنسز کے بجائے باقاعدہ خط لکھ کر پی ٹی آئی کو دعوت دی جائے۔

رسول بخش رئیس کے مطابق اس وقت جماعت اسلامی نے راولپنڈی میں دھرنا دے کر عوام کو درپیش مسائل حکومت کے سامنے رکھ دیے ہیں اور حکومت جانتی ہے کہ ان مسائل کے سامنا سب کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اب حکومت اس اہم معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی بات چیت موضوع بحث بنانا چاہ رہی ہے۔

Back to top button