دھوتی اور بنیان والا اقبال, محمد علی جناح کا ہیرو کیوں تھا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ دھوتی اور بنیان پہننے والا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بانی پاکستان محمد علی جناح کا ہیرو اس لیے تھا کہ اس نے پنجاب میں مسلم لیگ کو کھڑا کر دیا تھا لیکن افسوس کہ اج مسلم لیگ تو دور کی بات, ریاست پاکستان بھی اقبال اور جناح کی سوچ اور نظریے سے کوسوں دور جا چکی ہے.

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر سوال کرتے ہیں کہ یہ کون سا پاکستان ہے؟ یہ کم از کم علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تو نہیں ہے۔ تحریک پاکستان کی اصل طاقت کوئی جرنیل یا جاگیردار نہیں بلکہ عام مسلمان تھے۔ لیفٹ اور رائٹ دونوں سوچوں کے لوگ تحریک پاکستان میں ساتھ ساتھ تھے۔ پاکستان بن گیا تو لیفٹ اور رائٹ نے ناصرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی لڑنا شروع کردیا۔ ایک مرتبہ فیض احمد فیض نے ڈاکٹر ایوب مرزا کو انجمن ترقی پسند مصنفین سے اپنے علیحدہ ہونے کی کہانی سنائی. یہ پوری کہانی ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی…‘‘ کے نام سے مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ کتاب ’’فیض احمد فیض ‘‘میں موجود ہے۔ فیض کے بقول 1949ء میں احمد ندیم قاسمی انجمن کے سیکرٹری تھے۔ حکم ہوا کہ علامہ اقبال کو تباہ اور عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور ن۔ م راشد کو ختم کردیا جائے۔ فیض صاحب نےاس حکم کوبک بک قرار دے کر مسترد کردیا۔ ایک دن قاسمی صاحب نے انجمن کےاجلاس میں علامہ اقبال کے خلاف ایک مقالہ پڑھا۔ فیض نے اس مقالے کو انتہا پسندی قرار دیا اور انجمن کو اقبال دشمنی سے منع کیا۔ ان کی نہ مانی گئی تو وہ انجمن سے علیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض شناسی‘‘ میں فیض صاحب کے 22 انٹرویو شامل ہیں۔ ایک انٹرویو میں فیض نے علامہ اقبال کو اس دور کا آخری مفکر قراردیا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ فیض نے ترقی پسندی کے نام پر اقبال کی مذمت سے انکار کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب احمد ندیم قاسمی بھی اقبال کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گے۔ علامہ اقبال کا کمال یہ ہے کہ ان کی عظمت پر فیض احمد فیض جیسا لیفٹسٹ اور مولانا مودودی جیسے رائٹسٹ بھی اتفاق کرتے ہیں۔ مولانا مودودی اقبال کو ایک بڑا شاعر اور اچھا مسلمان سمجھتے تھے. 1937ء میں اقبال پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ مولانا مودودی نے سیاست پر اقبال سے گفتگو کی لیکن وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ پاکستان میں علامہ اقبال کے ساتھ سب سےبڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ انہیں صرف ایک شاعر کے طور پر پیش کیاگیا، جس نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دو برسوں میں قائد اعظم کی فرمائش پر پنجاب میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کیلئے جو محنت کی اس سے صرف نئی نسل نہیں بلکہ وہ سینئر سیاستدان بھی بے خبر ہیں جو آج بھی مسلم لیگ کے مختلف دھڑوںکے ’’قائد‘‘ کہلاتے ہیں۔ جرنیلوں اور جاگیرداروں کی ملی بھگت سے آج پاکستان میں جو جمہوریت مسلط ہے اس میں قائد اعظم کے پائے کا کوئی قانون دان یا اقبال جیسا کوئی شاعر مسلم لیگ کا عہدیدار بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عاشق حسین بٹالوی نے 1959ء میں لندن میں بیٹھ کر ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ جداگانہ طرز انتخاب پر دو سال کے مختصر عرصے تک اختلافات کا شکار رہنے کے بعد اقبال اور قائد اعظم ایک دوسرے کے قریب کیسے آئے؟ دسمبر 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد پیش کرنے کےکچھ عرصہ کے بعد اقبال 1931ء میں لندن آئے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں قائد اعظم نے اقبال کی ستائش میں ایک فصیح تقریر کی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم چند سال کیلئے لندن میں مقیم تھے۔ 1932ء میں اقبال پھر لندن گئے اور اس مرتبہ بھی قائد اعظم سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔جب قائد واپس ہندوستان تشریف لے آئے تو اپریل 1936ء میں لاہور آئے۔ قائد اعظم لاہور میں اقبال کو ملنے پہنچے تو شاعر مشرق نے دھوتی اور بنیان پہن رکھی تھی۔ خوش پوشاک قائد اعظم نے دھوتی اور بنیان میں ملبوس اقبال سے کہا کہ مسلم لیگ کو آپ کی مدد چاہیے۔ اقبال بیمار بھی تھے اور تنگ دستی کا بھی شکار تھے کیونکہ بیماری کے باعث وکالت چھوٹ گئی تھی۔ اقبال نے قائد اعظم سے کہا کہ میں کروڑ پتی سیٹھ تو نہیں لیکن عوام کو مسلم لیگ کے قریب لا سکتا ہوں۔ یہ سن کر قائد نے کہا کہ مجھے صرف عوام کی مدد درکار ہے۔ اس کےبعد اقبال کو مسلم لیگ کے پارلیمینٹری بورڈ میں شامل کیاگیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ 12مئی 1936ء کو پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی جس میں اقبال صدر، غلام رسول خان سیکرٹری اور عاشق حسین بٹالوی جائنٹ سیکرٹری بنائے گئے۔ اقبال نے 1937ء کے انتخابات کیلئےپنجاب میں مسلم لیگ کا مجلس احرار اور اتحاد ملت سے اتحاد کرایا۔ صرف چند ماہ کی بھاگ دوڑ کے بعد مسلم لیگ نے پنجا ب میں سات امیدوار کھڑے کئے جن میں سے دو جیتے۔ مسلم لیگ کا حمایت یافتہ ایک آزاد امیدوار سیف الدین کچلو بھی کامیاب ہوا۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر جیت کر راجہ غضنفر علی خان یونینسٹ پارٹی میں چلے گئے اور پیچھے صرف ملک برکت علی رہ گئے۔ بیماری سے ہلکان اقبال کو مسلم لیگ کی تنظیم سازی کیلئے فنڈز کی ضرورت تھی۔ عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ اقبال ہمیں پنجاب کے بڑے بڑے جاگیرداروں کے پاس فنڈز کیلئے بھیجتے. وہ یونینسٹ پارٹی کے خوف سے فنڈز نہیں دیتے تھے لیکن اقبال کی وجہ سے عام مسلمانوں میں مسلم لیگ کو بہت پذیرائی ملی اور اسی لئے 23مارچ 1940ء کا اجلاس لاہور میں ہوا لیکن اس وقت اقبال دنیا میں نہیں رہے تھے۔ اقبال کی یہ محنت 1946ء کے الیکشن میں سامنے آئی جب مسلم لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن گئی۔ غور کیجئے! صرف کوئی محمد علی جناح ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اقبال جیسا کوئی شاعر پنجاب میں مسلم لیگ کو کھڑا کرسکتا ہے۔ آج کی مسلم لیگ کے تمام گروپوں سمیت ریاست پاکستان اقبال اور قائد کی سوچ سے کوسوں دور جا چکی ہے اور کچھ دانشور قوم کو متحد کرنے کی بجائے اقبال اور قائداعظم کے اختلافات تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ احمد سعید کی کتاب ’’اقبال اور قائداعظم‘‘میں ایک خوبصورت واقعہ درج ہے۔ 1940ء میں قائد اعظم نے لاہور میں یوم اقبال کی ایک تقریب میں کہا کہ اگر مجھے سلطنت مل جائے اور کہا جائے کہ اب سلطنت اور اقبال میں سے کسی ایک کو منتخب کرو تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔ آج ہمیں دھوتی اور بنیان والا اقبال تلاش کرنا ہے جو بانی پاکستان محمد علی جناح کا ہیرو تھا۔

Back to top button