عمران خان فوج کی مخالفت چھوڑ کر منتوں پرکیوں اترآئے؟

فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنا کر بے بنیاد الزامات عائد کرنے والے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اچانک اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کیلئے محبت بھرا پیغام بھیج کر سیاسی مبصرین کا حیران کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار عمران خان کے تازہ بیان کو ان کی نئی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سنہ 2022 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ سابقہ اور موجودہ فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گذشتہ سال مئی میں جیل میں قید کیے جانے کے بعد ان کے لہجے میں تلخی مزید بڑھ گئی تھی۔

عمران خان نے اڈیالہ جیل سےنہ صرف آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی جماعت کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں حتی کہ عمران خان نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے قتل تک کا الزام عسکری قیادت پر لگایا اور کہا کہ انھیں زیر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے انھیں کچھ ہوا تو ذمہ دار فوجی قیادت ہو گیمگر اب عمران خان نے بظاہر اس جارحانہ لہجے کو بدل کر ایک دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔

دراصل اڈیالہ جیل سے عمران خان کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام ایک پیغام آیا ہے اور اس پیغام کو لانے والی شخصیات میں ان کی پارٹی کے سینیئر رہنما عمر ایوب اور عمران خان کی بہن علیمہ خان ہیں۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے فوجی قیادت کو کیا پیغام دیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے مطابق موجودہ شہباز حکومت کی پوری کوشش ہے کہ فوج، پی ٹی آئی اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کر دے۔‘ تاہم عمران خان نے آرمی چیف کے نام پیغام دیا ہے کہ ’وہ ’نیوٹرل‘ ہو جائیں،ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ عمران خان کا پیغام یہی ہے کہ ’آرمی چیف حکومت کی حمایت نہ کریں بلکہ پیچھے ہٹ جائیں۔‘اس ملک کو چلنے دیں۔‘

اس پیغام کے بعد حکومتی صفوں میں کسی حد بے چینی بھی نظر آئی۔وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کے مطابق ’یہ ایک جال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح انھیں کوئی راستہ ملے۔‘ ’ہمیں یہ لگ رہا ہے یہ کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات ہو گئی ہے کہ جیسے ہی نومبر میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور بنیں گے تو پھر نئے انتخابات ہوں گے۔ ہمیں الرٹ رہنا ہوگا اور ہمیں ان چیزوں کو فیس کرنا ہو گا اور ہمیں ان چیزوں کو مینج کرنا ہو گا۔‘

دوسری جانب اسی معاملے پر سینیئر صحافی اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بانی پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حضور عرضیاں گزارنے والے عمران خان بہادر بنیں۔ اعصاب جواب دے گئے ہیں تو پورا سچ بھی اگل دیں۔ کہہ ڈالیں کہ ہاں پی ٹی آئی کو فوج سے انھوں نے لڑایا۔‘ان کے مطابق عمران خان کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ جنرل عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لیے پنڈی پر یلغار انھوں نے کرائی۔‘عمران خان یہ بھی تسلیم کریں کہ وہ ’جیل میں بیٹھ کر فوج اور آرمی چیف کے خلاف مضمون لکھ رہے ہیں۔‘

تاہم سوال۔پیدا ہوتا ہے کیا عمران خان کا پیغام پی ٹی آئی کے لہجے میں تبدیلی ظاہر کرتا ہے؟ مبصرین کی رائے میں اس نئی حکمت عملی کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔

صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید کے مطابق تحریک انصاف یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ کوئی ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ چل رہی ہے مگر بظاہر ایسا نہیں۔ان کے مطابق یہ تحریک انصاف کی ایک نئی حکمت عملی ہے کہ چلیں ایسا بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ اس کا ردعمل کیا آتا ہے۔

سہیل وڑائچ بھی نصرت جاوید سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق ’مجھے نہیں لگتا کہ اب رویے میں تبدیلی سے بھی معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اب جو پوزیشن لی جا چکی ہے اس میں ایک کی کامیابی دوسرے کی ناکامی ہے۔‘ان کے مطابق ’اب جو فریق بھی صلح کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ اسے اس کا کتنا نقصان ہو گا۔‘ایک سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’ماضی سے یہی پتا چلتا ہے کہ یہاں کوئی بھی اپنے مفاد کو دیکھے بغیر صلح کرتا ہے نہ مفاہمت کرتا ہے۔ مجھے یہ نہیں لگتا کہ مقتدرہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی، نہ مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی۔‘ان کی رائے میں یہ ’ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنا پینترا بدلا ہو۔ اپنا داؤ بدلا ہو۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق اس وقت ’انھیں عدالت سے ریلیف تو مل ہی رہا ہے تو انھوں نے پھر یہ حکمت عملی اختیار کر لی کیونکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بھی ایک واضح پیغام تھی۔‘

سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کے خیال میں تحریک انصاف مفاہمت چاہتی ہے۔ ان کے مطابق عمران خان نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کہیں انھیں نو مئی کے مقدمات میں فوج کی حراست میں نہ دے دیا جائے۔ان کے مطابق فوج کی طرف سے سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی اور ڈیجیٹل دہشتگردی جیسی اصلاحات سے بھی تحریک انصاف کو سخت پیغام گیا۔

عاصمہ شیرازی کی رائے میں فوج نو مئی کو نہیں بھول رہی۔ ان کے مطابق ’اب ایک طرف عمران خان کو یہ لگ رہا ہے کہ انھیں عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے مگر ساتھ یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں معاملات اب فوجی عدالتوں میں نہ پہنچ جائیں۔‘عاصمہ شیرازی کے مطابق اس وقت تحریک انصاف کا کارکن بھی احتجاج اور دھرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا، اس وجہ سے اب عمران خان ڈیل کے ذریعے ہی معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی رائے میں تحریک انصاف کی یہ سوچ ہے کہ اگر اس طرح بات بن گئی تو بہت اچھا وگرنہ پھر انتہائی اقدام کی تیاری کی جائے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان میں مستقل مزاجی کی کمی ہے۔ یہی چیز پاکستانی سیاست کے تناظر میں ان کی طاقت بن چکی ہے۔ان کی رائے میں اب مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی کے بعد عمران خان کو یہ اندازہ ہوا کہ دیوار بہت اونچی ہے اور ریاست کی طاقت کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے اب انھوں نےمجبورا مفاہمتی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کے مطابق سنہ 2016 سے 2018 تک نواز شریف اور مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوزیشن لیے رکھے اور پھر بعد میں ان کی خاموشی عمران خان کے لیے طوفان ثابت ہوئی۔ان کے مطابق اب اگر عمران خان توپوں کا رخ موڑ لیتے ہیں تو پھر یہ موجودہ حکومت کے لیے اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ’حکومت یہ چاہتی ہے کہ عمران خان اپنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتے رہیں تاکہ وہ حکومت کر سکیں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے نمٹتے رہیں۔‘

Back to top button