نیوٹرل کو جانور کہنے والے عمران کا فوج کو نیوٹرل ہونے کا مطالبہ

ماضی میں نیوٹرل کو جانور کہنے والے عمران خان نے اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو سپہ  سالار کہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری نیوٹرل ہو جائیں. ایسے میں وہی پرانا سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ عمران خان کی کون سی بات کا یقین کیا جائے کیونکہ وہ یو ٹرن لینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے. عمران خان کی تازہ موقف سے اندازہ ہوتا ہے کہ تازہ خبر آئی ہے، بڑا صاحب ہمارا بھائی ہے.

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے سینیئر صحافی محمد بلال غوری کہتے ہیں کہ مرشد پاک خان صاحب نے تو کمال کر دیا، میں تو انکی سحر انگیز شخصیت کا دیوانہ ہوگیا ہوں۔ ہم بچپن میں ایک کہاوت سنا کرتے تھے کہ کتے کے منہ میں ہاتھی کے دانت نہیں اُگتے, مگر مرشد نے ان سب فرسودہ تصورات کو باطل ثابت کردیا ۔ مرشد پاک جب چاہیں پانی میں آگ لگا دیں ۔اب دیکھئے ناں کہاں وہ میر جعفر اور میر صادق والا بیانیہ اور کہاں سپہ سالار کے القابات۔ کہاں وہ قبر تک پیچھا کرنے کی باتیں اور کہاں یہ درخواست کرنے کا دل موہ لینے والا انداز۔

بلال غوری بتاتے ہیں کہ عمران خان نے جیل سے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کو پیغام بھیجا ہے کہ ہم آپ سے درخواست ہی کر سکتے ہیں، لہذا براہ کرم نیوٹرل ہو جائیں۔ ویسے آپ ’’نیوٹرل‘‘ کی اصطلاح کو لیکر متفکر نہ ہوں ،اس کی نئی تفسیر اور تعبیر سامنے آئے گی تو سب عش عش کرتے رہ جائیں گے۔مجھے بھی پرانی باتیں یاد ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر والی کہ جب اچھائی اور برائی کی لڑائی ہو، ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہو تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں کسی کے ساتھ نہیں ہوں ،میں تو نیوٹرل ہوں ۔اللہ نے اس موقع پر انسان کو نیوٹرل رہنے کا اختیار ہی نہیں دیا۔ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس شعور نہیں ہوتا، اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ مرشد کی طرف سے نیوٹرل کی نئی تشریح کا انتظار کیجئے، انہیں موقع دیا گیا تو وہ ثابت کر دیں گے کہ موجودہ حالات میں فوج کا نیوٹرل ہونا ہی شرعی، قانونی ،آئینی،اخلاقی اور سماجی تقاضہ ہے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی نے افواج پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد 23 جولائی 1993 کو ایک انگریزی اخبار میں لکھا کہ جب سیاستدان کوئی بات کہتے ہیں تو مختلف قسم کے حالات میں ان کی باتوں کا مفہوم بدل جاتا ہے۔مثال کے طور پر جب سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج سیاست سے دور رہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اقتدار میں ہیں اور ہماری حکومت کو صرف آپ سے خطرہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کام سے کام رکھیں۔اسی طرح جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فوج اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریاں نبھائے تو وہ دراصل یہ عرضی پیش کر رہا ہوتا ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں، ہمارے پاس اقتدار حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں، براہِ کرم ہماری مدد کریں۔ جنرل (ر) اسد درانی کے مطابق جب یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ فوج ’’نیوٹرل‘‘ رہے تو اس کی تشریح یہ ہے کہ فی الحال حالات کنٹرول میں ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو بلائیں گے۔جنرل (ر)اسد درانی کی بات میں وزن ہے۔اب دیکھئے ناں جب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تو ایک ہی بات کہاکرتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو جائے ،تحریک انصاف کے سر سے سایہ شفقت اُٹھا لے تو عمران خان کی حکومت فوری طور پر گر جائے گی۔اب اسی قسم کی باتیں تحریک انصاف کی طرف سے کی جارہی ہیں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ بہر حال مرشد خان صاحب کے پیروکار،پرانا بیانیہ بھول جائیں اور بس ایک ہی نعرہ لگائیں: نعرہ یہ ہے کہ ’’تازہ خبر آئی ہے، عاصم ہمارا بھائی ہے۔‘‘ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر حالات واقعی بدل گئے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ شہبازشریف اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کریں ،شیروانی کی جیب سے کوئی کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کریں کہ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے، ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ اور جب اسٹیبلشمنٹ یہ کہہ کر تعاون کرنے سے انکار کردے کہ ہم نیوٹرل ہیں، ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ کہیں نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ۔خیر و شر اور حق و باطل کے معرکے میں تو اللہ نے نیوٹرل رہنے کی اجازت ہی نہیں دی۔کیا ایسا ممکن ہے؟میرا خیال ہے یہ لوگ چاہیں بھی تو مرشد خان صاحب کو کاپی نہیں کر سکتے۔

Back to top button