عمران نے ایک بار پھرمحمود اچکزئی کی عزت کیسے تار تار کی؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنی ماضی کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے پختون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کی عزت کا جنازہ نکال دیا۔ تحریک انصاف نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین  محمود خان اچکزئی کی سرکردگی میں قائم تحریک تحفظ آئین کو ناکام اور غیر موثر ثابت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نئے وسیع تر اتحاد کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے

خیال رہے کہ محمود خان اچکزئی کو چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین کا سربراہ بنایا گیا تھا اور عمران خان نے انھیں تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا تاہم حزب اختلاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی کو اچھا مذاکرات کار خیال کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ تحریک انصاف کے لئے مطلوبہ حلقوں سے مذاکرات کے لئے دروازہ کھولیں گے لیکن کم و بیش چار ماہ سے اس منصب پر فائزرہنے کے باوجود کسی نے ان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول نہیں ڈالا۔ مبصرین کے مطابق محمود اچکزئی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اپنے مخصوص اور سخت گیر موقف کی وجہ سے مقتدر ادروں سے کسی گفت و شنید کے لئے موزوں ثابت نہیں ہوئے ان سے کسی بھی ادارے یا کسی دوسری جماعت نے بات چیت کے لئے سرے سے رابطہ ہی قائم نہیں کیا اب عمران نیازی نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ محمود اچکزئی سے کسی نے مکالمہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا تحریک انصاف کی قیادت کی عمران نیازی سے ملاقات کے بعد دو ہفتے میں حکومت کے خلاف نیا وسیع تر سیاسی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے واضح ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف سے 8؍ فروری کے عام انتخابات کے بعد اپنے لئے جو اہداف مقرر کر رکھے تھے ان کے حصول میں وہ ناکام ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ اتحاد میں وسیع کرنے کی بجائے نئے اتحاد کا تصور سیاسی مارکیٹ میں لے آئی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے کسی اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے وہیں مولانا فضل الرحمن بھی تحریک انصاف کی قیادت میں کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔

مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو حکومت کیساتھ مذاکرات کے لیے آگے لگانے کے بعد اب اپنا ہاتھ پیچھے کھینچنے سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان سنجیدہ، بامقصد اور نتیجہ خیز مزاکرات میں نہ تو کبھی پہلے سنجیدہ تھے اور نہ اب ہیں۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرائو، سبھائو، مکالمہ، بات چیت، افہام و تفہیم انکی سرشت میں ہی شامل نہیں۔ دوسرا سبب یہ کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے آج بھی اُسی ’’بارگاۂِ فیض‘‘ کی طرف دیکھ رہے ہیں جہاں سے ماضی میں اُنہیں فیضان حاصل ہوا۔ لہذاا پی ٹی آئی ’مذاکرات‘ کے عنوان سے ’’پنگ پانگ‘‘ کھیل رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اپنے تمام پتے چل چکے ہیں۔ اُنکی کوئی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ مسلسل ناکام ہوتے احتجاجی مظاہروں سے پی ٹی آئی کی اسٹریٹ پاور کا پول بھی کھل گیا ہے۔ مقدمات اپنی جگہ موجود ہیں۔ پارٹی میں یکجہتی نام کی کوئی شے نہیں۔ 66 ارب روپے کرپشن کا ’’القادر کیس‘‘ فیصلہ کُن موڑ تک آن پہنچا ہے۔ ڈسے یا نہ ڈسے، 9 مئی کا شیش ناگ بدستور پھن پھیلائے پھنکار رہا ہے۔ عمران خان کے لئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی دریچہ کھُلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بات اُس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک خان صاحب خلوصِ دِل کے ساتھ اپنی جماعت کی ایک بااختیار کمیٹی تشکیل نہیں دیتے۔ ہر تدبیر الٹی پڑنے اور ہر حربہ ناکام ہوجانے کے بعد خان صاحب کی شاخِ فکر پر ’’پاکستان کے مفاد‘‘ کی جو تازہ کونپل پھوٹی ہے، وہ بالغ نظری اور سنجیدہ قدمی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں تو بے اختیار قاصدوں، ہرکاروں، نامہ بروں اور ایلچیوں کو رُسوا نہ کریں۔

Back to top button