ایران میں ہنیہ اسرائیل کا نشانہ کیسے؟ معمہ حل نہ ہو سکا

فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شہادت نے جہاں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا وہیں حملے کے بعد سے نہ صرف مختلف قیاس آرائیوں اور مفروضوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ گذشتہ برس سات اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں کشیدہ صورت حال کا دائرہ اب دیگر خطوں میں پھیلنے کا بھی خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ جہاں ایک طرف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں اسماعیل ہنیہ کو پہلے سے نصب کئے گئے دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنانے کا دعوی کیا ہے۔ وہیں دوسری جانب اسرائیلی دفاعی ماہرین کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے جدید گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ تاہم ایران نے اپنے مہمان اسماعیل ہنیہ کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس واقعے سے متعلق کسی قسم کی تفصیلات اب تک جاری نہیں کی گئیں کہ یہ حملہ کیسے اور کہاں کیا گیا۔دوسری جانب اگرچہ حماس نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے اسے ’صیہونی حملہ‘ قرار دیا، تاہم اب تک تل ابیب کا اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اسماعیل ہنیہ کے قتل کے واقعے کے بعد بھی افواہیں اور مفروضے سامنے آ رہے ہیں۔ایران انٹرنیشنل کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کی موت رات دو بجے کے قریب شمالی تہران میں سابق فوجیوں کی خصوصی رہائش گاہ پر ’فضا سے آنے والے پروجیکٹائل‘ کے نتیجے میں ہوئی۔ اب یہ میزائل تھا یا ڈرون اور اسے ایران کے اندر سے داغا گیا یا باہر سے؟ اس حوالے سے سب کے لب سِلے ہوئے ہیں۔ہاں لبنانی ٹی وی المائدین نے یہ رپورٹ ضرور کیا کہ اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ پر لگنے والا میزائل ایران سے نہیں بلکہ کسی اور ملک سے داغا گیا تھا۔

اسی دوران یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر ہنیہ کو واٹس ایپ کی مدد سے ٹریس کیا۔فری پریس جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایک وٹس ایپ میسج کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کے فون میں سپائی ویئر انسٹال کیا تھا، جس کی مدد سے ان کی اصل لوکیشن اسرائیلی ڈیفنس فورس کو موصول ہوئی اور ان پر ڈرون حملہ کیا گیا۔اسماعیل ہنیہ نے آخری مرتبہ اپنے بیٹے سے فون پر گفتگو کی، جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے ان کے مقام کی نشاندہی کرکے انہیں شہید کردیا۔تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چین کی طرح ایران بھی ان چند ممالک میں شامل ہے، جہاں وٹس ایپ پر پابندی ہے اور لوگ وی پی این کے ذریعے یہ ایپ استعمال کرتے ہیں، لیکن وٹس ایپ اپنے رجسٹرڈ فون نمبروں کی مدد سے یہ پتہ لگا سکتا ہے کہ اس کے صارفین واقعی کہاں ہیں۔

دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مشرق وسطیٰ کے سات حکام، جن میں دو ایرانی اور ایک امریکی عہدے دار شامل ہیں، کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ بدھ کو تہران کے جس مہمان خانے میں نشانہ بنایا گیا وہاں بم کو پہلے سے چھپا کر پہنچایا گیا تھا۔رپورٹ میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ مہمان خانے میں بم تقریباً دو مہینے سے چھپایا گیا تھا۔ اس مہمان خانے کے انتظامات اور سکیورٹی پاسدران انقلاب کے حوالے تھی۔مشرق وسطی کے پانچ حکام نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کی مہمان خانے میں موجودگی کی تصدیق ہونے پر بم کو ریمورٹ سے اڑا دیا گیا۔دھماکے سے عمارت لرز اٹھی اور متعدد کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ نیویارک ٹائمز سے شیئر کی گئی ایک تصویر میں عمارت کو پہنچنے والا نقصان نظر آ رہا ہے۔ان حکام کا مزید کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ تہران کے کئی دوروں کے دوران اسی مہمان خانے میں ٹھرے تھے۔

واقعے کے فوراً بعد قیاس آرائیاں تھیں کہ اسرائیل نے ڈرون یا طیارے کی مدد سے میزائل داغا جس نے اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ کو نشانہ بنایا۔تاہم ان قیاس آرائیوں سے متعلق سوالات پیدا ہو رہے تھے کہ اسرائیل نے کیسے ایرانی کے فضائی دفاع کو چکما دیا۔ تاہم اب پتہ چلتا ہے کہ قاتلوں نے ایران کے دفاع میں ایک مختلف قسم کے خلاکا فائدہ اٹھایا ہے۔

اسرائیلی دفاعی مبصرین نے دعویٰ کیا ہے کہ صہیونی ریاست نے حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو جدید گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا جسے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی رافیل نے تیار کیا ہے۔اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسپائک این ایل او ایس جدید ترین اسرائیلی گائیڈڈ میزائل ہے جو ناصرف اپنے ہدف تک غیر معمولی رفتار سے پہنچتا ہے بلکہ اپنے فضائی راستے اور ہدف کی ویڈیو بھی ریئل ٹائم جاری کرتا ہے۔عموما ٹینکس کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا یہ میزائل الیکٹرو آپٹیکل سینسرز کی مدد سے اپنے ہدف کو تلاش کرتا ہے۔اسپائک این ایل او ایس میزائل پچاس کلومیٹر سے ڈھائی ہزار کلومیٹر تک بھی اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زمینی نظام سے لانچ کیے جانے پر میزائل کی رینج 20 میل ہے۔جدید میزائل سسٹم بیک وقت چار میزائلوں کو لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس وقت اسرائیلی افواج کے زیر استعمال ہیں جبکہ میزائل کو ڈرونز اور دوسرے طیاروں کے ذریعے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ ان تمام مفروضوں کے حوالے سے اب تک حتمی طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کا دوسرا گھر کہلائے جانے والے ایران کے قلب میں اس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر جان لیوا حملہ بغیر منصوبہ بندی اور تکنیکی مہارت کے نہیں ہوسکتا تھا۔

Back to top button