پی ٹی آئی کاالیکشن ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کرنے کاامکان

مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے شہباز حکومت اور عدلیہ ایک بار پھر آمنے سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف اتحادی جماعتوں نے حکومت کو ترمیم کی منظوری میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا دی ہے ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ختم ہو جائے گا.وہیں دوسری جانب جے یو آئی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے دوران غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے ترمیم کی منظوری کی صورت میں ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل کے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنا یا اس میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ ان کے بقول اس ترمیم سے حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آسکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں (ن) لیگ کی مرکز میں حکومت ختم تو نہیں ہوگی تاہم حکومتی اتحاد کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں رہے گی اور حکومت کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتی۔بعض مبصرین کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل لانے کا ایک مقصد سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کرانا بھی ہوسکتا ہے۔

پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ نجی ممبر بل پیش ہونے کے دوسرے دن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر منظور کرلیا گیا ہو۔ اس کے برعکس نجی ممبر بلز مہینوں اور بعض اوقات تو سال کے عرصے میں بھی کمیٹی سے منظور نہیں ہوپاتے۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری کے بعد سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام ہو چکا ہے جس کے بعد بل دستخط کے لیے صدرِ پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور اس طرح الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل قانون بن جائے گا۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کے متن ہی سے لگتا ہے کہ یہ مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کے لیے لایا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے میں قانونی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اور معاملہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی اقدام کرتی ہے تو پارلیمنٹ، حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اگر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتی تو اس میں پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی نقصان نہیں ہوگا البتہ نشستیں ملنے کی صورت میں وہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی اور اگر چاہے تو اتحادی حکومت بنانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کو عدالتوں سے بے جا ریلیف مل رہا یے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے بدلتے لہجے کے باعث بھی مسلم لیگ (ن) کو لگتا ہے کہ کہیں بیک ڈور عمران خان سے بات چیت نہ چل رہی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ لیکن ابھی تک پی ٹی آئی کو اسٹبلشمینٹ سے کوئی رعایت نہیں مل رہی ہے اور ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

تاہم سینئر تجزیہ کار مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہو جائے اور اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی نظرِثانی درخواست پر کارروائی شروع ہوجائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کے تحت کارروائی کرسکتی ہے۔مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمینٹ کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ مگر اصل میں مسئلہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے۔ان کے بقول اسٹبلشمینٹ کے لیے پہلی لائین آف ڈیفینس حکومت، دوسری الیکشن کمیشن اور تیسری پارلیمنٹ ہے۔

تجزیہ کار مطیع اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی متنازع اکثریت استعمال کر کے عدالت سے جنگ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے مگر فساد ہوا تو فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی ہو گا کیوں کہ ماضی بھی ایسے حالات کا فائدہ انہیں کو ہی ہوا ہے۔

Back to top button