غلط ریاستی پالیسیاں بلوچستان کو بھی مشرقی پاکستان بنا سکتی ہیں

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ چند ماہ سے بلوچستان کی صورت حال تشویش ناک حد تک بگڑ چکی ہے لیکن فیصلہ سازوں کے کان پر جون تک بھی رینگتی نظر نہیں آتی۔ ظلم یہ ہے کہ ریاست پاکستان بلوچ عوام کے جائز مطالبات پر توجہ دینے کی بجائے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو سختی سے کچلنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ فیصلہ سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ایسی ہی پالیسیوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا۔

پی ٹی آئی کاالیکشن ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کرنے کاامکان

روزنامہ ڈان کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں زاہد حسین کہتے ہیں گزشتہ چند دنوں سے خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔ پرامن احتجاجی ریلی کو روکنے کے لیے حکام کی جانب سے طاقت کے استعمال نے پہلے سے ہی غیرمستحکم حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اس وقت صوبے میں تقسیم عروج پر ہے لیکن اس کے باوجود اقتدار میں براجمان لوگوں کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں۔

چاروں صوبوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ گوادر میں جمع ہوئے اور انہوں نے صرف جبری گمشدگیوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے جمہوری حقوق کے لیے بھی مظاہرہ کیا۔ سیکیورٹی اہلکار سمیت متعدد افراد تصادم میں ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ مارچ کرنے والے سیکڑوں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا جبکہ مختلف مقامات پر سڑکوں کو رکاوٹیں ڈال کر بلاک بھی کیا گیا۔

تاہم زاہد حسین کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں کیونکہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نکالی گئی ریلی کو روکنے میں ناکام رہے۔ ریلی کی کال کو بلوچ قوم پرست جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب صوبے یا اس سے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف اس نوعیت کا احتجاج ہوا ہو لیکن حالیہ مظاہرہ یقینی طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ نوجوان ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچستان یکجہتی کمیٹی انتہائی مضبوط آواز بن کر ابھری ہے۔ مشتعل مظاہرین نے جنوبی بلوچستان کے تمام بڑے علاقوں میں نظامِ زندگی کو مفلوج کردیا ہے جوکہ کشیدگی کا مرکز بن چکا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مارچ کے شرکا پر تشدد اور سڑکیں بلاک کیے جانے نے عوام کو مزید مشتعل کیا۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف مظاہروں بڑے پیمانے پر صوبے میں پھیل چکے ہیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچ آبادی کس قدر ملک سے ناخوش ہیں جوکہ طویل عرصے سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ مظاہرین میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جن کے خاندان کے افراد لاپتا ہیں یا انہیں قتل کرکے ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔ الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ انہیں سیکیورٹی حکام نے اغوا کیا تھا۔

زاہد حسین کے مطابق ماہ رنگ بلوچ نے بھی اس سب کا سامنا کیا۔ ان کے والد کو 2009ء میں اغوا کیا گیا تھا اور ان کی تشدد زدہ لاش 2011ء میں ملی۔ اس دل سوز واقعے نے انہیں بلوچ متحرک کارکن بننے پر مجبور کیا۔ مرد سیاسی کارکنان کے ساتھ ہونے والے ظلم نے ان کی خواتین اقربا کو مجبور کیا کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور تحریک کی قیادت کریں۔ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ ریاست کو پہلے ہی بڑھتی ہوئی علحیدگی پسند عسکریتی قوتوں کا سامنا ہے۔ اس پُرامن احتجاج کا حقیقی مقصد غریب اور پسماندہ آبادی کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کروانا تھا۔

  گروپس میں شمولیت پر مجبور کرتے ہیں جوکہ پہلے ہی جمہوری سیاسی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں۔ سیاسی کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور غیرقانونی گرفتاریوں نے تعلیم یافتہ اور مایوس نوجوانوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ بلوچ طلبہ کی بڑی تعداد کو ملک بھر کی جامعات سے مبینہ طور پر سیکیورٹی حکام نے اغوا کیا۔ خدشہ یہ ہے کہ لاپتا افراد کبھی اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔

زاہد حسین کا مزید کہنا ہے کہ ریاست کے سخت اقدامات اور جمہوری حقوق دینے سے انکار، بلوچستان میں علحیدگی پسند گروپس کے زور پکڑنے کی اہم وجوہات ہیں۔ یقیناً اس میں بھی کسی حد تک سچائی ہوگی کہ بلوچ انتہا پسندوں کو بیرونی قوتوں کی سپورٹ حاصل ہے لیکن عسکریت پسندی کی اصل وجہ ریاستی جبر اور جمہوری حقوق دینے سے انکار ہے۔ ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے مزید افراد انتہا پسند گروپس میں شامل ہورہے ہیں۔ چنانچہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت کا سہارا لے کر عوام میں بڑھتے عدم اعتماد کو قابو میں نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات نے ظاہر کیا کہ جابرانہ اقدامات سے عوام کی جدوجہد کو نہیں دبایا جاسکتا۔ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ رہنماؤں کی شنوائی ہونی چاہیے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ریاست جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو ختم کرے اور بلوچ عوام کو ان کا جمہوری سیاسی حق دے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مقامی معاشی وسائل اور صوبے میں ترقی میں سے بلوچ عوام کو بھی حصہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ اگر جائز مطالبات کرنے والوں کی آوازوں کو بھی دبا دیا جائے گا تو پاکستان کے مستقبل کے لیے کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔

Back to top button