ججز ریاست مخالف عمران کے لیے حفاظتی دیوار کیوں بن رہے ہیں ؟

عمران خان کا ماضی قوم کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تھا، حال، ماضی کی سازشوں کے احتساب اور سروائیول کی جنگ اور مستقبل منفی سیاست کی گہری دلدل، جہاں سے عمران خان کا بچ کر نکلنا ممکن نہیں۔ تاہم جس طرح عدلیہ ایک مضبوط دیوار بن کر ان کے پیچھے کھڑی ہے۔اس سے ملک کسے بڑے سانحے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی شکیل انجم نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔

کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے عمراندارججز کی سازش ناکام بنا پائے گی؟

شکیل انجم کا مزید کہنا ہے کہ شورش، تخریب اور ریاست مخالف سیاست اور ان سے وابستہ نظریات دیرپا نہیں ہو سکتے، جلد یا بدیر زوال ان کا مقدر ہوتا ہے کیونکہ یہ نظریات غیر فطری، جمہور دشمن اورجمہوریت کے بنیادی تصورات کے منافی قرار دئیے جاتے ہیں۔ شکیل انجم کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ملک کے خلاف منظم عالمی سازش کا تسلسل ہوسکتا ہے جس کے تحت اس بار پاکستان پر دو اطراف سے حملے ہو رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی عالمی سازش پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تو پاکستان دشمن ممالک کی خواہش پر دنیا کا ایک ایسا نقشہ جاری کیا گیا جس میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان کا حصہ نہیں تھے۔ شکیل انجم کے مطابق سانحۂ مشرقی پاکستان کے اسباب اور وجوہات کا بغور مطالعہ کریں تو منظر تمام جواب طلب سوالوں کے ساتھ واضح ہوسکتا ہے جس میں یہ عالمی سازشیں کھل کر سامنے آسکتی ہیں کہ کیسے مشرقی پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے سازشیں تیار کی گئیں حالانکہ شیخ مجیب الرحمن سمیت عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔اب جبکہ حالات اسی جانب جاتے نظر آ رہے ہیں جب مشرقی پاکستان مقامی سیاستدانوں کے تعاون سے عالمی سازشوں کی جکڑ میں تھا۔آج بھی بلوچستان انڈین ایجنسیوں اور خیبر پختونخوا عمران خان کے قبضہ میں ہے۔دونوں کے پیچھے نظام عدل کی حفاظتی دیوار کھڑی ہیں جو قومی سلامتی کی ترجیح کو مسترد کرتے ہوئے ملک میں سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرتیں پیدا کرنے اور ملک کو تقسیم کرنے کا نظریہ رکھنے والے گروہوں کے لئے راستے ہموار کرنے اور جانے انجانے میں ملک دشمنی کے ایجنڈے کو مضبوط کرنے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔

شکیل انجم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا نظام عدل کے نزدیک قومی سلامتی کی اہمیت ضروری نہیں بلکہ ملک دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے والوں کو ’’یکطرفہ ریلیف‘‘ دینا مقدم ہے؟شکیل انجم کے مطابق عمران خان نے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ’’ہم نے فوج پر الزام نہیں، تنقید کی تھی!‘‘ کیا فوج میں انتشار پیدا کرنے کی تحریک فوج پر تنقید تھی یا انہیں دہشتگرد فوج ثابت کرنے کی عالمی سازش کا آلہٴ کار بن کر جھوٹے بیانیوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کے اداروں کودنیا میں متنازع بناکر پیش کرنا تھا۔فوج پر الزام نہ لگانے کے دعویدار عمران خان شاید وزیرآباد فائرنگ واقعہ بھول گئے جب انہوں نے فوج کے اعلیٰ آفیسرز کو ایک نوجوان کے قتل میں ملوث کرکے ایف-آئی-آر میں انہیں نامزد کرانے کی کوشش کی تاکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی خواہش کے مطابق اس دستاویز کی بنیاد پر پاکستان کی فوج کو دہشتگرد قرار دلایا جاسکے۔آئین کی دھجیاں بکھیرنے والا آج جی-ایچ-کیو پر حملہ کو’’آئینی‘‘ قرار دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ جی-ایچ-کیو کے سامنے احتجاج کرنا جرم ہے؟ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور سلامتی کے اداروں کو تاراج کرنا آئینی عمل ہے؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جی-ایچ-کیو کے سامنے احتجاج کرنا آئین پاکستان کے عین مطابق تھا لیکن کیا واقعتاً یہ صرف احتجاج تھا یا حساس اداروں اور شہداء کی یادگاریں مٹانے کے لئے جارحانہ حملے؟ کیا کورکمانڈر ہاؤس، جی-ایچ-کیو، آئی ایس آئی کی عمارتوں کوبے توقیر کرنا اور توڑپھوڑ کرنا آئین کے عین مطابق تھا؟ کیا آئین میں یہ شق موجود ہے؟ کیا عمران خان کے حکم پرشہداء کی یادگاروں کی توہین کرنا، مجسموں کو توڑ کر اس کے ٹکڑے سڑکوں پر پھینک کر اس ملک کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کو بے توقیر کرنا عین عبادت ہے؟ یا یہ کہ عمران خان اور ان پارٹی کو آئین میں اس ملک کو تباہ کرنے کی اجازت کی شق رکھی گئی ہے؟شکیل انجم کے مطابق یہ تاثر عوامی اور سیاسی حلقوں میں جڑیں پکڑ رہا ہےکہ عمران خان نے جہاں اپنی ملک دشمن پالیسیوں کی بدولت قومی سلامتی اور سلامتی کےاداروں کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا اس سے کہیں زیادہ نقصان سیاست کو تعمیر کی بجائے جھوٹ، جبر اور تخریب کی سیاست کا نظریہ متعارف کرا کر کیا جس میں عمران خان کسی قسم کی شرمندگی یا ندامت محسوس کئے بغیر’’سیاسی قلابازیاں‘‘ لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، سیاست کو پراگندہ کرنے اور اسے خدمت کی بجائے گالی بنانے میں عمران خان کا کلیدی رول ہےاور جب حالات پر گرفت کمزور ہوئی تو ایک نئی قلابازی لیتے ہوئےفوج سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کے خلاف بدزبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شکیل انجم کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے قتل کی بازگشت پوری دنیا کے کونے کونے سے سنی جاسکتی ہے لیکن ہمارے’’قومی ہیرو‘‘یعنی عمران خان کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اظہار مذمت کی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔

Back to top button