کیا حزب اللہ اور ایران ملکر اسرائیل کی بینڈ بجانے والے ہیں؟

ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد جہاں ایک طرف ایران اور حزب اللہ نے اسرائیل کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کیلئے صف بندی شروع کر رکھی ہے وہیں اس واقعے کے بعد سے ایران سے متعلق ہر اشارے، ہر بیان، ہر تقریر پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے کہ ایران اس حملے پر اسرائیل کو کب اور کیا جواب دے گا۔ ساتھ ہی یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ایران کا جوابی حملہ پورے خطے کو ایک وسیع تر تصادم میں دھکیل سکتا ہے۔تاہم ایرانی حکام نے ابھی تک اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ کیا کرنے والا ہے جبکہ دوسری جانب مغربی ممالک کا بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس ایران کے بارے میں محدود انٹیلی جنس معلومات ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں کہ ایران کیا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اس بار ایران بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے، یہ پچھلی ناکامی کو نہ دہرانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

جنرل فیض نے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضے کی کوشش کیسے کی؟

ادھر لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں اپنے کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے قبل اسرائیل نے فواد شکرکو بیروت میں ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ نے لبنان کی سرحد کے قریب اسرائیل کے شمال میں حملے شروع کر دیے تھے۔ اس کے بعد سے لبنان میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔اب تک اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تشدد لبنان اور اسرائیل کے درمیان شمالی سرحد تک محدود ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ہی یہ اشارہ دیتے رہے ہیں کہ وہ مکمل جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔اب تک حزب اللہ نے صرف اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے لیکن اب اس کے حملے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ یہ اسرائیل کے اندرونی علاقوں میں بھی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق ماضی میں بھی حزب اللہ نے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر راکٹ حملے کئے ہیں لیکن اب بیروت میں اپنے مضبوط گڑھ میں اپنے اعلیٰ کمانڈر کے قتل کے بعد حزب اللہ بھی زیادہ علامتی ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔تاہم حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ یقینی ہے کہ اس کا ردعمل تنازعات کے قواعد کے اندر ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اگر ایران کے جوہری مقامات کبھی بھی اسرائیلی حملے کا نشانہ بنتے ہیں تو جوابی کارروائی میں حزب اللہ کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ حزب اللہ خطے میں ایران کا حمایت یافتہ اتحاد ہے جس میں یمن کے حوثی باغی اور عراقی ملیشیا بھی شامل ہیں۔ یمن کے حوثی باغی اور عراقی جنگجو بھی 7 اکتوبر سے خطے میں مغربی مفادات اور اسرائیلی ملکیت پر حملے کر چکے ہیں۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ایران اور اس کے اتحادی گروپ اسرائیل کیخلاف جوابی کارروائی کو مربوط کریں گے، حالانکہ امریکی میڈیا رپورٹس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ حزب اللہ اکیلے اور سب سے پہلے حملہ کر سکتی ہے۔کشیدگی اور انتظار کے خوف کے درمیان اسرائیل اور لبنان جانے اور آنے والی پروازیں منسوخ کی جا رہی ہیں۔ ایئر لائنز ان ممالک کی فضائی حدود سے گریز کر رہی ہیں اور دنیا بھر کے ممالک اپنے شہریوں کو اسرائیل اور لبنان چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ جنگ کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں اس خطے کوحادثاتی طور پر یا دانستہ طور پر جنگ میں دھکیلا جا سکتا ہے۔

Back to top button