عمران کے دست راست فیض حمید کو اپنے خدا ہونے کا یقیں کیوں تھا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری کا اعلان تو ایک ہاؤسنگ سکینڈل میں کیا گیا ہے لیکن شنید یہ ہے کہ وہ 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر ہونے والے بلوائی حملوں کے منصوبہ ساز تھے، لہذا ان کا کورٹ مارشل کسی ایک الزام پر نہیں بلکہ کئی الزامات پر ہونے کا امکان ہے۔ حماد کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کے لیے فیض حمید نے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے، کئی سازشیں کیں، کتنے ہی دام بچھائے، سب سے بڑھ کر انہوں نے فوج کے ادارے کے اندر گروپ بندی کرنے کی کوشش کی، الزام یہ ہے کہ وہ اس حرکت سے اب بھی باز نہیں آ رہے تھے اور ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران کے ساتھ مل کر عمرانی بغاوت کا الاؤ بھڑکا رہے تھے۔ بہرحال، اب فیض حمید کو سمجھ آئے گی کہ ان کے اکثر پیش رو بعد از ریٹائرمنٹ دیارِ غیر کو اپنا مسکن کیوں بناتے رہے ہیں۔ بلا شبہ، فیض اپنے وقت میں جبر اور قہر کی علامت سمجھے جاتے تھے، اور خلقِ خدا ان کے شر سے پناہ مانگتی تھی، لیکن موصوف خود گرفتار ہیں، اور ان کا خدا بننے کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔

فیض حمید کن PTI  لیڈروں کو جرنیلوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے؟

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ شداد، فرعون، نمرود وغیرہ ہماری ہوش سے پہلے کے کردار ہیں، ان کے بارے میں پڑھا تو ہے لیکن ہم نے انہیں چلتے پھرتے، ہنستے بولتے، چائے پیتے نہیں دیکھا۔ لیکن جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ فیض حمید کے خدائی رویوں سے خلقِ خدا خوب آشنا بھی تھی اور خائف بھی، وہ سیاہ و سفید پر تصرف رکھتے تھے، متکبر تھے، جبار تھے قہار تھے، لیہن بہرحال، اب انہیں فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ حماد غزنوی کے مطابق فوج کے ادارے نے فیض کو تحویل میں لیتے ہوئے دو الزامات لگائے ہیں، ایک تو کسی ہاوئسنگ سوسائٹی ہتھیانے کی کوشش کا کیس ہے، اور دوسرا الزام جو مشتہر کیا گیا ہے وہ بعد از ریٹائرمنٹ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹی والے کیس کی مہیب تفصیلات برطرف، یہ ایک سیدھے سادے ڈاکے کا کیس ہے، جس میں ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر سے کروڑوں روپے نقد اور سونا لوٹا گیا، لیکن اس ڈاکے کا سب سے تاسف انگیز پہلو یہ ہے کہ فیض حمید نے اس حرکت کے لیے اپنے ادارے کے اہل کاروں کو استعمال کیا جس سے عوام میں ادارے کی تکریم پر حرف آیا۔ جہاں تک فیض کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد ’نازیبا‘ حرکات کا الزام ہے، اس کی تفصیلات طشت از بام نہیں کی گئیں، سو آ ئیں دو جمع دو کرتے ہیں۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں مدتوں سے قصرِ سیاست کی غلام گردشوں میں چُھپن چُھپائی کھیلتی رہی ہیں، حمید گُل، احمد شجاع پاشا اور ظہیرالسلام اس کھیل کے بدنام زمانہ کھلاڑی رہے ہیں۔ ان سابق آئی ایس آئی سربراہوں کے سینوں پر آئینی حکومتوں کے خلاف سازشوں کے کئی وزنی تمغے جُھول رہے ہیں۔ مگر طلائی تمغے کے اصل حق دار کا ظہور ابھی باقی تھا۔ فیض حمید نے ایک معیوب روایت کو نقطہء عروج تک پہنچا دیا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، فیض حمیدایک دم نہیں ہوتا۔ ان صاحب نے اپنے ادارے کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ جو ناقابلِ فخر روایت ہمیشہ پسِ پردہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی اسے بے نقاب کر دیا، جو عمل تاریکی میں چھپ کر کیا جاتا تھا وہ حرکت دن دہاڑے کوٹھے پر شروع کر دی۔ ہمارے ہاں عدلیہ کا بازو مروڑنے کی روایت کے بانی فیض حمید تو نہیں ہیں، مگر جس دھڑلے اور تسلسل سے یہ کام فیض نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی، یعنی موصوف بہ نفسِ کثیف جسٹس شوکت صدیقی سے فرماتے ہیں کہ ہماری دو سالہ محنت ضائع نہیں ہونی چاہیے، جو ہم کہہ رہے ہیں بس وہ کرو، چھوڑو عدالت کو اور انصاف کو اور اپنے حلف کو اور اپنے ضمیر کو۔خفیہ ایجنسیاں اہم لوگوں کے فون ٹیپ کرنے کا شوق توہمیشہ سے رکھتی ہیں، مگر فیض حمید نے اس کھیل کو بھی توڑ تک پہنچایا، جس جس کمرے میں کیمرا لگ سکتا تھا، لگوایا، اور پھر ان فلموں کا کھڑکی توڑ استعمال کیا، یہاں تک کہ اپنے عزیز حلیف عمران خان کو بھی نہیں بخشا۔

فرعون ہو یا ہلاکو ہو، فیض حمید ہو یا عمران، احتساب سب کا ہو گا

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت گرانے کے لیے تحریک لبیک کو استعمال کرنے والے فیض حمید کو فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے نے رسوائیوں کی اتھاہ دلدل میں دھکیل دیا  مگر انہوں نے دل برا نہیں کیا اور پوری شدت سے قاضی فائز عیسیٰ کو عدلیہ سے نکالنے کی کوششوں میں جُت گئے۔ فیض حمید، جسٹس شوکت صدیقی کو کام یابی سے نکلوانے اور فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنوانے کے عمل میں خود بھی برہنہ ہوتے گئے اور پورے نظام کو بھی بے ستر کرتے چلے گئے۔ ایجنسیاں سیاست میں مداخلت کی شوقین تو ابتدا سے رہی ہیں، مگر ایک سیاسی پارٹی کو اپنے ایک ڈیسک کے طور پر چلانے کا انوکھا تجربہ بھی فیض حمید نے کر کے دکھایا، پہلی دفعہ پارلیمینٹ کے اندر ایک افسر بٹھا کر ببانگِ دہل پورے نظام کی توہین کی گئی۔ میڈیاکو لگام ڈالنے کی خواہش تو ابتدا سے آج تک موجود ہے، مگر اس کام میں بھی جو جبروقہر فیض نے عام کیا وہ کوئی فرعونِ دوراں ہی کر سکتا تھا۔سادہ لفظوں میں فیض حمید وہ صاحب تھے جنہوں نے ملک کے آئینی نظام کو روند کر رکھ دیا۔ مگر یاد رہے کہ ان کی گرفتاری مذکورہ گناہوں کے باعث عمل میں نہیں لائی گئی، یہ گناہ تو ہماری نگاہوں میں گناہِ کبیرہ ہیں، مگر کچھ حلقوں میں یہ روزمرہ کےمعمولات میں شامل ہیں۔ اگر ان گناہوں کی پاداش میں فیض حمید کو گرفتار کیا جاتا تو پھر تونہ جانے کون کون گردن سے پکڑا جاتا۔

Back to top button