شہباز شریف رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے سیکرٹری کو ہٹانے سے گریزاں

وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے اہم ترین عہدے پر فائز کامران علی افضل اسلام آباد میں اپنے سگے بھائی کے ملکیتی مونال ریسٹورنٹ کو بچانے کے لیے سرکاری اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود ابھی تک بدستور اپنے عہدے پر موجود ہیں اور عدالتی حکم کے باوجود وزیر اعظم نے ابھی تک انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

یاد رہے کہ رواں سال 11 جون کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تمام کمرشل سرگرمیوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا جو کہ مونال ریسٹورانٹ کے خاتمے کا آغاز بھی ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے دیا گیا تھا اور نینشل پارک میں تجارتی سرگرمیاں فوری بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں، تاہم وہاں کاروبار کرنے والوں کی درخواست پر عدالت نے انھیں تین ماہ کا وقت دیا تھا جو ستمبر 2024 کے اواخر میں ختم ہونا تھا۔ تاہم یہ عدالتی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے ہی مونال ہوٹل کے مالک لقمان علی افضل کے بھائی اور موجودہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے چالاکی دکھاتے ہوئے ایک انوکھی چال چلی اور وزیر اعظم کو اعتماد میں لیکر ایک سمری وفاقی کابینہ میں پیش کر دی تاکہ مونال ریسٹورنٹ والی زمین کا کنٹرول وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سے چھین کر وزارت داخلہ کو دے دیا جائے۔ کابینہ سے اس سمری کی منظوری بھی لے لی گئی جسکے تحت اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن رعنا سعید کو ناصرف برطرف کر دیا گیا بلکہ وائلڈ لائف بورڈ کو وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کیا اور 15 اگست کو چیئرمین سی ڈی اے، سیکرٹری کابینہ ڈویژن اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹریز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ مونال ریسٹورانٹ کے مالک نے فوجی حکام سے لیز پر جو جگہ لی تھی وہ وائڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام آتی ہے، نہ کہ فوج کے، لہذا اس معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں۔

چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے اسلام اباد ہائی کورٹ بھی اپنے فیصلے میں واضح کر چکی ہے کہ کسی بھی زمین کی خرید و فروخت یا لیز کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے اور آرمڈ فورسز پراپرٹی کو ڈیل نہیں کر سکتیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 1910 میں فوج کو دی گئی زمین کا کنٹرول 1960 میں سی ڈی اے آرڈیننس کے بعد وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلا گیا تھا لہازا مونال والوں کو زمین لیز پر دے کر فوجی افسران نے قانون توڑا اور اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کیا۔

فائز عیسی نے اپنے حکمنامے میں یہ بھی لکھا کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا ہے کہ لقمان علی افضل، یعنی مونال کے مالک، ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اسکے علاوہ سیکریٹری کا۔ران افضل نے رولز آف بزنس پر انحصار کرتے ہوئے کابینہ سے متفقہ منظوری نہیں لی اور اپنے اور اپنے بھائی کے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اقربا پروری کا مظاہرہ کیا جو کہ عوامی مفاد کے خلاف تھا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس حرکت پر سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ نہ تو چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد ہوگا اور نہ ہی نیشنل پارک کو وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے اقربا پروری دکھانے والے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا کیونکہ وہ ان کے پیاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

Back to top button