فیض حمید کی سیاہ کاریوں کا ماسٹر جنرل باجوہ تھا یا عمران خان؟

سینئرصحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف فیض حمید کے وعدہ معاف گواہ بننے پر انہیں کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ جنرل فیض حمید غلط بیانی کے بہت بڑے بادشاہ تھے اسی بنیاد پر ہی ان کی ترقی ہوئی ہے۔ حامد میر کے مطابق فیض حمیدنے عمران خان کے کہنے پر اتنے بڑے کام نہیں کیے ہیں انہوں نے زیادہ تر غلط کام جنرل باجوہ کے کہنے پر کیے ہیں تاہم اگر وہ جنرل باجوہ کے خلاف خاموش رہتے ہوئے عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں تو پھر جو بھی معاملہ ہوگا وہ دراصل جنرل فیض کے خلاف ہی چارج شیٹ بنے گی۔

حامد میر کا مزید کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے ملک پر 30 سال تک قبضے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔جنرل فیض حمید صرف 3 سے 4 سال پہلے تک پاکستان کی طاقتور ترین شخصیات میں سے ایک تھے، ایک اشارہ کرتے تھے تو سیاستدان جیل میں چلا جاتا تھا، ایک اشارہ کرتے تھے تو کسی بھی ٹی وی اینکر پر پابندی لگ جاتی تھی، ایک اشارہ کرتے تھے تو ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز تبدیل ہو جاتی تھیں، چلتے پروگرام بند ہو جاتے تھے، لیکن آج دیکھیں وہ خود بھی گرفتار ہو چکے ہیں اور جو جو لوگ ان سے رابطے میں تھے وہ بھی حراست میں ہیں اور ان سے بھی تحقیقات ہو رہی ہیں، تو اس میں سبق ہے کہ جن لوگوں کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے انہیں اپنی طاقت اور اختیار کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے، لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے، اللہ کی ذات ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ آپ دوسروں کے لیے خود جو گڑھا کھودتے ہیں اس میں گر جاتے ہیں۔

ثاقب نثار اپنی جان بچانے کے لیے قسمیں اٹھانے پر مجبور ہوگئے ؟

حامد میر کا کہنا تھا جنرل فیض جب آئی ایس آئی کے ڈی جی سی اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے صرف ایک جماعت میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کیں بلکہ 3، 4 جماعتوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں، ان کے وہ تعلقات ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بہت کام آئے، اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی جب ان کے خلاف ایک دو کیسز شروع ہوئے تو انہوں نے بند کروا دیے کیونکہ ان کے موجودہ حکومت میں بھی تعلقات تھے لیکن ان کے خلاف جو اب تحقیقات شروع ہوئی ہیں اس میں فی الحال تو کچھ فوجی افسران کا نام آ رہا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ اس میں کچھ سیاسی شخصیات بھی تحقیقات کی زد میں آئیں گی اور معاملہ عدلیہ کی کچھ ریٹائرڈ اور کچھ حاضر سروس شخصیات کی طرف بھی جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب جنرل فیض حمید کے پاس طاقت اور اختیار تھا تو انہوں نے ہائیکورٹس میں ججز کو تعینات کروانے اور ان کو پروموٹ کروانے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا عدلیہ کی کچھ شخصیات کے ساتھ رابطہ تھا، ہو سکتا ہے کہ ریٹائرڈ شخصیات سے بھی پوچھا جائے کہ جب فیض صاحب کے مسینجر آپ کے پاس آتے تھے تو کیا بات ہوتی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں سینئر صحافی کا کہنا تھا جب عمران خان کے دور حکومت میں مجھ پر پابندی تھی تو میں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم لکھا تھا جس میں میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پاکستان میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں، یہ قبل از وقت انتخابات کروانا چاہتے ہیں اور جنرل فیض خود آرمی چیف بن کر نومبر یا دسمبر 2022 میں الیکشن کروانا چاہتے تھے اور اس الیکشن میں یہ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت دلوانا چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک الائنس بن جائے جس میں ان کو کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ان کا کہنا تھا جنرل فیض صرف آرمی چیف نہیں بننا چاہ رہے تھے بلکہ انہوں نے عمران خان کو اپنی سیڑھی بنایا ہوا تھا اور وہ پاکستان میں 1973 کے آئین کو مکمل طور پر دریا برد کر کے صدارتی نظام لانا چاہتے تھے، دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنرل فیض حمید نے میڈیا کے کچھ لوگوں سے کہا میں 30 سال تک کہیں نہیں جا رہا اس لیے آپ میرے ساتھ کھڑے ہوں ورنہ آپ کو بہت نقصان ہوگا، انہوں نے 30 سال تک ملک پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا وہ اس کام کے لیے عمران خان کو استعمال کر رہے تھے۔

سینئر صحافی کا کہنا تھا جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پیپلز پارٹی والوں کو یہ کہتے تھے کہ عمران خان کو میں 5، 10 سال بعد فارغ کر دوں گا پھر آپ کی باری ہے، پیپلز پارٹی والوں نے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے جب پیپلز پارٹی ان سے انگیج ہوئی تو ان کو شک پڑا یہ یہ بندہ چاہتا کیا ہے، جب پیپلز پارٹی والوں نے مزید معلومات لیں تو جنرل فیض انہیں کہتے تھے میں عمران خان سے بھی بڑا تنگ ہوں، شریف برادران سے بھی تنگ ہوں، میں نے شریف برادران کو کتنی سہولت دی اور انہیں پاکستان سے باہر بھجوایا لیکن پھر بھی باہر جاکر میرا نام لیتے ہیں، عمران خان میری مجبوری ہے، میں بلاول کو پاکستان کا وزیراعظم بنوا دوں گا لیکن آپ آصف زرداری کو کسی طرح پاکستان سے باہر بھیج دیں، پیپلز پارٹی والے کہتے تھے آصف زرداری کو کیسے بھیج دیں تو جنرل فیض کہتے تھے جس طرح نواز شریف کوبھیجا ہے۔

حامد میر کا کہنا ہے کہ ان کے بڑے بڑے منصوبے تھے، وہ ہر کسی کو استعمال کرنا چاہتے تھے، خواجہ آصف صحیح کہتے ہیں کہ جنرل فیض اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ آخری دنوں میں تو جنرل باجوہ بھی ان سے خوف کھانے لگے تھے۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں کے فیض حمید کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حامد میر کا کہنا تھا میں جانتا ہوں کہ تحریک انصاف کے بہت سے لوگ ہیں جن کے فیض حمید کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ رہنماؤں کے ذریعے کوشش کرتے تھے کہ پی ٹی آئی جنرل فیض کی مرضی سے چلے، وہ سیاستدان سوچتے تھے کہ جنرل فیض ہمیں جو ہدایات دے رہا ہے اس کا تو ہمیں نقصان ہی نقصان ہے، جنرل فیض ان رہنماؤں کو ایسے اسائمنٹ دیتے کہ فلاں حاضر سروس جنرل کا نام لو، فلاں کے خلاف یہ بات کرو، جو پی ٹی آئی رہنما ان کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے تھے تو فیض حمید پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ذریعے ہی ان رہنماؤں کے خلاف عمران خان کے ذہن میں زہر گھولتے تھے۔

سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا تحریک انصاف کے 5 سے 6 رہنما فیض حمید سے بہت تنگ تھے، کیونکہ فیض حمید ان سے کہتے تھے کہ آپ نے فلاں ڈویژن میں پارٹی عہدہ اسے کیوں دیا ہے اس کو کیوں نہیں دیا، جنوبی پنجاب کے ایک رہنما جنرل فیض حمید کا پیغام لیکر جاتے تھے کہ جنرل صاحب نے کہا ہے آپ نے فلاں بندے کو جو عہدہ دیا ہے اس سے لیکر اس کو دیدو، جو پی ٹی آئی رہنما ان سے تنگ تھے وہ کہتے تھے پارٹی عمران خان کی ہے تو فیض حمید کون ہوتا ہے حکم چلانے والا تو یہیں سے تو ان کی لڑائی شروع ہوئی تھی۔

حامد میر کا کہنا تھا جب خبریں نکلیں اور پھیلیں تو پتہ چلا کہ فیض حمید ناصرف پی ٹی آئی سے رابطے میں تھے بلکہ وہ موجودہ حکومت کے کچھ وزرا، ایک مذہبی جماعت کے لوگوں، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے کچھ وزرا، میڈیا کے لوگوں اور کچھ بڑے بزنس مینوں سے بھی رابطے میں تھے، اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگوں کے رابطے میں بھی تھے جن کو اب حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی نہیں بچیں گے، ہو سکتا ہے کوئی انھیں بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔ حامد میر نے انکشاف کیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو جنرل فیض حمید ہی نہیں سابق آرمی چیف جنرل باوجوہ بھی استعمال کر رہے تھے، جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے مفادات آپس میں ٹکرانے لگے تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔فیض حمید کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے مؤقف پر بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ میرا اب بھی یہی کہنا ہے کہ جنرل فیض تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں سے رابطے میں تھے، فیض حمید کی گرفتاری سے پہلے پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے آف دی ریکارڈ فیض حمید سے شکوے شکایات شروع کیے ہوئے تھے، اب ان کی گرفتاری پر رابطوں سے انکار کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو فائدہ ہوا کیونکہ جنرل فیض پی ٹی آئی کے معاملے میں مداخلت کرتے تھے اور ڈکٹیشن دینے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ اب بند ہوگئی ہے، دوسری جانب پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ فیض صاحب کا پارٹی سے ذاتی سطح پر رابطے میں کوئی برائی نہیں تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت کے کسی لگائے گئے عہدیدار کو ہٹانے کے مطالبے پر پی ٹی آئی کا فیض حمید سے اختلاف تھا۔

Back to top button