پنجاب میں PTI مریم حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام کیوں رہی ؟

مریم نواز کے وزیر اعلی بننے سے قبل صوبے میں گورننس کے مسائل کے علاوہ ان کےلیے سب سے بڑا چیلنج پی ٹی آئی کے بدتمیز اراکین اسمبلی کو قرار دیا جا رہا تھا اور سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ مریم نواز بطور خاتون وزیر اعلی یوتھیوں کی بدتمیزیوں اور بدتہذیبیوں کا کیسے جواب دیں گی؟ تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد نہ صرف مریم نواز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کو قابو کرنے میں کامیاب رہی ہیں بلکہ انہوں نے پی ٹی آئی کے عمرانڈو اراکین کو ان کے ذاتی اور جماعتی مسائل میں اتنا الجھا رکھا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اور وہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے ذاتی ریلیف کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

گذشتہ چھ مہینے کی اپوزیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی حکمت عملی سے اسے غیر متعلق کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چھ مہینے کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو اسمبلی کے اندر گالی گلوچ پر اپوزیشن کے 11 اراکین کی رکنیت معطل کی گئی تو اپوزیشن بالکل ہی بے بس ہو گئی۔ کئی مہینے تک وہ صرف اپنے معطل ارکان کی بحالی کے لیے اسمبلی گیٹ کے باہر احتجاج کرتی رہی۔اسی وجہ سے اسمبلی کا بزنس چلانے کے لیے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں کے لیے اپوزیشن کی تعیناتی چھ مہینے تک رکی رہی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کو مختلف معاملات میں ایسا الجھائے رکھا ہے جس سے وہ ایک مؤثر حزب اختلاف بننے کی بجائے اپنے معاملات کے حل میں لگی ہوئی ہے۔

عمراندار ججز اور حکومت کی جنگ میں آخری جیت کس کی ہو گی ؟

ایک طرف سے اسمبلی میں مشکلات سے دوچار تحریک انصاف سے وابستہ اپوزیشن سیاسی طور پر بھنور میں ہے۔ تو دوسری طرف پنجاب کے صدر حماد اظہر اور ان کے حمایت یافتہ پارٹی ارکان کے لاہور کی تنظیم سے استعفوں اور تحریک انصاف کے اندر دھڑوں کی سیاست نے صورت حال کو اور کمزور کر دیا ہے، اور اس کا اثر اسمبلی کے اندر کے معاملات پر بھی براہ راست ہو رہا ہے۔

تاہم اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر اس تاثر کو زائل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی جماعت انتخابات سے پہلے سے زیرِعتاب  ہے۔لیکن پنجاب اسمبلی میں’اپوزیشن اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اور جس طرح سے ہماری پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے، اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کا کردار ہم ٹھیک سے ادا نہیں کر رہے، تو ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اسمبلی میں اتنی مؤثر آواز اٹھائی کہ اب وزیراعلٰی پنجاب اسمبلی میں آنے سے کتراتی ہیں۔‘’جہاں تک ہمارے پارٹی کے اندر کے معاملات کا تعلق ہے وہ کسی بھی جمہوری پارٹی میں ہوتا ہے۔ عمران خان کی قیادت کے نیچے ہم سب متحد ہیں۔ اختلاف اور دھڑے بندیاں چلتی رہتی ہیں۔‘

البتہ سیاسی تجزیہ وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ ’گذشتہ چند مہینوں میں جو پاکستان تحریک انصاف کے اندر گروہ بندیوں نے جگہ بنائی ہے اس سے اپوزیشن اپنے اصل کام سے غیرمتعلق ہو چکی ہے۔ اور آپس کی لڑائی اور قیادت کے بحران کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں بڑے سخت قوانین پاس ہوئے ہیں لیکن اپوزیشن کچھ نہیں کر سکی، یہ پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسمبلی میں ان کی قیادت کن افراد کے ہاتھ میں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے اگر ہم تحریک انصاف کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو اصل اپوزیشن کرنے کی جگہ یعنی اسمبلی کی بجائے پی ٹی آئی کی توجہ کا مرکز اسمبلی کے باہر اپوزیشن کرنے کا رہا ہے۔ عمران خان سنہ 2013 کے انتخابات میں اسمبلی کے اندر اپوزیشن کرنے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے اب پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی کے اندر حکومتی پالیسیوں کیخلاف آواز بلند کرنے کی بجائے اسمبلی کے باہر نعرے بازی کو ترجیح دیتی ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قانون سازی اسمبلی کے اندر ہوتی ہے باہر خالی نعرے مارنے سے نہ انھیں کوئی فائدہ ہو گا اور نہ ہی عوام کو کئی ریلیف ملے گا‘

خیال رہے کہ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کا تعلق میانوالی سے ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سینٹرل پنجاب یا لاہور سے فعال اپوزیشن لیڈر نہ لانا بھی تحریک انصاف کے اندر مسائل کا سبب بنا ہے۔سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینٹرل لیڈر شپ منقسم ہے جس کا اثر ہر چیز پر ہے۔ چاہے وہ جلسوں کی سیاست دوبارہ شروع کرنی ہو یا پھر اسمبلی کے اندر کردار ادا کرنا ہو یہ ان کے لیے اب مشکلات کا باعث بن رہا ہے جس کا فائدہ حکمران پارٹی اٹھا رہی ہے۔‘

Back to top button