فیض حمید نے انڈر ورلڈ ڈان بن کر 30 ارب روپے کس طرح کمائے؟

سینیر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید 2019 سے 2021 تک کسی سراغ رساں ادارے کے سربراہ کے طور پر نہیں بلکہ کسی انڈرورلڈ ڈان کی طرح کام کر رہے تھے۔ اس دوران موصوف نے جو رقم  کمائی اس میں سے 30 ارب روپے مختلف منصوبوں میں انویسٹ کر رکھے تھے جس کی تفصیلات ان کی ڈائری سے حاصل کر لی گئی ہیں۔ اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ ہم نے سیاست دانوں کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں تو بہت سنی تھیں لیکن اب ہمیں ایک ایسے شخص کی کرپشن کہانیاں سننے کا موقع ملا ہے جو کئی سال تک بہت سے سیاستدانوں کیلئے عجب بھی تھا اور غضب بھی تھا۔ اس شخص کا نام فیض حمید تھا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے موصوف کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن حال ہی میں ایک دوست کے گھر تین مختلف شخصیات کی گفتگو سن کر مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اور فیض کی کرپشن کا سراغ لگانے کیلئے کئی امتحاں اور بھی ہیں۔ اس محفل میں موجود ایک کاروباری شخصیت نے کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ اپنی آپ بیتی سنائی۔ 2021 میں ان صاحب پر ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور پھر فیض حمید نے خود انہیں فون کرکے کہا کہ میرا فلاں افسر آپ کو فون کریگا اس کی بات سن لیجئے گا۔ پھر فیض کے ایک ماتحت نے اس کاروباری شخصیت کو فون کرکے کہا کہ پانچ ارب روپے کیش کا بندوبست کریں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اسی طرح کی کئی کہانیاں سن کر میں نے حیرانی سے پوچھا کہ فیض حمید اتنی رقم کہاں رکھا کرتے تھے؟ اس پر محفل میں موجود ایک صاحب نے بتایا کہ فیض حمید نے باقاعدہ ایک ڈائری میں حساب کتاب لکھ رکھا تھا۔ ایسی رقوم وہ اپنے پارٹنرز کے حوالے کر دیتے تھے جو انہیں مختلف ہائوسنگ اسکیموں یا دیگر کاروباری منصوبوں میں انویسٹ کر دیتے تھے فیض کی ڈائری میں موجود تفصیلات کے مطابق موصوف نے مختلف کاروباری منصوبوں میں 30 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو یہ رقوم کسی بینک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئیں اور نہ ہی کسی تحریری معاہدے میں انکا ذکر آیا لہٰذا فیض حمید کا ایک بزنس پارٹنر اب یہ چاہتا ہے کہ انہیں ایسی سزا ہو کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک باہر نہ آئیں اور نہ ہی اپنے اربوں روپے کا حساب کتاب مانگیں۔

عمران خان کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ فیض حمید نے نہیں ہونے دیا

حامد میر کے بقول فیض کی کرپشن کہانیوں کے ان عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ نومبر 2016 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی مہربانی سے جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تو انکے سسر اعجاز امجد کی سفارش سے فیض حمید کو جنوری 2017 میں آئی ایس آئی کا ڈی جی کائونٹر انٹیلی جنس لگایا گیا۔ باجوہ نے فیض حمید کو ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ میں استعمال کیا اور دوسری طرف اسکے ذریعے اپنے کئی ذاتی مفادات کا فروغ اور تحفظ بھی کیا۔ فیض حمید پر ناصرف اپنے باس کی اصلیت کھل گئی بلکہ اُن پر کئی سیاستدانوں کی حقیقت بھی واضح ہوگئی جنہیں بند کمروں میں دبانا بڑا آسان ہو گیا۔ اسکے بعد باجوہ اور فیض نے ملکر نواز شریف کو نکالنے کی سازش کی۔ ابتدا میں انکی کوشش تھی کہ نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے۔ جب شہباز نے ان دونوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکار کر دیا تو انہوں نے بادلِ نخواستہ عمران خان کو ایک ایسی من پسند حکومت کا کپتان بنانے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے وطن عزیز میں صدارتی نظام کا راستہ ہموار کرنا تھا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور فیض کی سیاست میں کھلم کھلا مداخلت اور بلیک میلنگ کے سب سے بڑے گواہ وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ جب باجوہ آرمی چیف اور فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو میں نے تب یہ کہنا شروع کیا تھا کہ ان دونوں نے 2018 کے الیکشن سے قبل شہباز کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی۔ شہباز شریف کو میرے اس دعوے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن انہوں نے کبھی تردید نہ کی۔ باجوہ اور فیض کی بلیک میلنگ کے دوسرے بڑے گواہ آصف علی زرداری ہیں۔ فیض حمید کی کوشش تھی کہ جس طرح نواز شریف کو طبی بنیادوں پر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا، اسی طرح زرداری صاحب بھی پاکستان سے چلے جائیں۔ لیکن جب آصف زرداری نے انکار کیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

اسکے بعد عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ملکر 2018ء کے الیکشن سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ بنائی جس میں قومی مفاد کے نام پر سیاست دانوں کو جمع کیا گیا۔ اس پارٹی کو صوبے اور مرکز میں بہت سی نشستیں دلوائی گئیں اور پھر اسی کی مدد سے عمران خان کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا۔ عمران وزیر اعظم تو بن گئے تھے اور میڈیا پر باجوہ کی تعریفیں بھی بہت کرتے تھے لیکن اندر سے وہ باجوہ کو ناپسند کرنے لگے تھے۔

حامد میر کے بقول 23 مارچ 2019 کو عمران کی حکومت نے میجر جنرل فیض حمید کو ہلال امتیاز (ملٹری) دلوایا تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ فیض کو آئندہ بھی کوئی اہم کردار ملنے والا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد وہ صرف دو ماہ ایڈجوٹنٹ جنرل رہے اور پھر آئی ایس آئی کے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی باجوہ اور عمران دونوں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا۔ ایک طرف انہوں نے اپنے سے سینئر جرنیلوں کو فارغ کرنے کیلئے باجوہ کو ایکسٹینشن دلائی اور دوسری طرف عمران کو اپوزیشن، عدلیہ اور میڈیا سے لڑاتے رہے۔  فیض حمید ’’انڈر ورلڈ ڈان‘‘ کی طرح کام کرتے تھے۔ انکی سب سے بڑی خوبی جھوٹ، مکاری اور منافقت تھی۔ وہ خود بھی یہ کام کرتے اور دوسروں سے بھی یہی کام کراتے۔ موصوف سیاست میں فوج کی مداخلت کے ناقدین سے کہا کرتے تھے کہ آپ فوج پر تنقید جاری رکھیں لیکن مجھ سے دوستی کر لیں۔ مقصد یہ تھا کہ جنرل باجوہ پر تنقید کرو لیکن مجھے کچھ نہ کہو۔

فیض حمید کی شخصیت کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگست 2022 میں اس نے باجعہ کے بعد آرمی چیف بننے کیلئے شہباز شریف کی منت سماجت شروع کر دی اور عمران خان کیخلاف کچھ اہم مواد حکومت کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ فیض حمید خوشامد میں اتنا گر گیا کہ اس کے اگلے پچھلےسارے بھرم ٹوٹ گئے۔ جب وہ آرمی چیف نہ بن سکا تو اس نے سازشیں شروع کردیں جن کا بھانڈہ بھی تحریک انصاف کے ان رہنمائوں نے پھوڑ دیا جنہیں فیض حمید بلیک میل کر رہے تھے۔ حامد۔میر کے بقول سچ یہ ہے کہ فیض حمید کسی کے دوست نہیں تھے۔ وہ صرف اپنے اور پیسے کے دوست تھے۔ وہ دن دور نہیں جب کچھ معززین انکی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں پوری دنیا کو سنائیں گے اور پاکستانیوں کو پتہ چلے گا کہ بےچارے سیاستدان تو اس انڈر ورلڈ ڈان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے، یہ ڈان تو ان سیاستدانوں کو بھی لوٹتا رہا۔

Back to top button