سٹے آرڈر ختم ہوتے ہی 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنانے کا اعلان

فوجی اسٹیبلشمنٹ 9؍ مئی 2024 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث سویلینز اور انکے سہولت کار ریٹائرڈ فوجی افسران کا بے رحمانہ احتساب کرنے اور انہوں نے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور کسی بھی ملزم سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ایک سینئیر فوجی افسر کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے سپریم کورٹ کے سٹے آرڈر کے باعث نہیں سنائے جا رہے لیکن ایسے ملزمان کے ٹرائل جاری ہیں اور سٹے آرڈر ختم ہوتے ہی ان کے خلاف فیصلوں کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر ہو یا سویلین، 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی شخص کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ فوجی عمارتوں، تنصیبات اور عسکری علامات پر حملوں میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

ان خیالات کا اظہار ایک سینیئر فوجی افسر کی جانب سے تقریباً 40 یوٹیوبرز اور صحافیوں کے ایک گروپ کو دی گئی بریفنگ میں کیا گیا۔ بریفنگ کے شرکاء نے تاخیر سے ہونے والی عدالتی کارروائی اور بعض افراد کی بریت کے بارے میں سوال کیے جس پر انہیں بتایا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے تکنیکی اور عدالتی پیچیدگیاں ادارے کے عزم میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ بریفنگ کے دوران سوشل میڈیا ماہرین کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ٹرائل، عمران خان کے فوجی ٹرائل کے امکان، سیکیورٹی کی صورتحال اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے ملکی معیشت کی مضبوطی میں فوج کے کردار سمیت مختلف امور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے موقف سے آگاہ کیا گیا۔

سوشل میڈیا سے وابستہ سینئیر صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں سینیئر فوجی افسر کا کہنا تھا کہ فوج کے ترجمان اور فوجی سربراہ کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے احتساب کے حوالے سے بار بار جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے وہی فوج کا مؤقف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے حکم امتناع کے خاتمے کے ساتھ ہی 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنانے کا عمل شروع کر دیا جائے گا اور اس حوالے سے کسی کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال 9 مئی کے حملوں بعد آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد سے فوجی ترجمان جانب سے فوجی عدالتوں کے بارے میں دیے گئے بیانات میں کہا جاتا رہا ہے کہ آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق ہی نمٹا جا رہا ہے۔
اس دوران اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی ہی کالعدم قرار دے دی تھی اور حکم دیا کہ تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے۔ دسمبر میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے اس حکم کو معطل تو کر دیا تھا تاہم یہ بھی کہا تھا کہ جب تک فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اس وقت تک فوجی عدالتیں کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا سکتیں۔

رواں برس مئی میں ایک پریس کانفرنس میں مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا تھا کہ ’اگر نو مئی کرنے اور کروانے والوں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہیں گے۔ اب ایک سینیئر فوجی افسر نے بھی اپنی بریفنگ میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز اور ریٹائرڈ فوجی افسران کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملے گی اور عدالتی حکم امتناع ختم ہوتے ہی ان کے خلاف سزاؤں کا اعلان کر دیا جائے گا۔

Back to top button