وزیر اعلی کیجر وال نے وزیراعظم مودی کو دھوبی پٹرا کیسے مارا؟

ایک عام آدمی ہونے کے باوجود بھارتی سیاست میں داخل ہو کر دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا صفایا کرنے اور عوامی مقبولیت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے والے اروند کیجریوال نے چھ ماہ کی قید کے بعد رہا ہوتے ہی وزارت اعلیٰ سے  استعفی دے کر دوبارہ مینڈیٹ حاصل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کیجر وال کے اس اچانک اعلان نے مودی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ پوری بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس کوئی ایک بھی لیڈر نہیں جو دہلی میں کیجروال کو شکست دے سکے۔  کیجر وال کے اس فیصلے کو مودی سرکار کے لیے ایک دھوبی پٹرا قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم کے پاس اس کا کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا۔ یاد ریے کیجروال مودی سرکار کی جانب سے بنائے گئے ایک جھوٹے مقدمے کی وجہ سے چھ مہینے سے جیل میں تھے اور گذشتہ ہفتے ہی سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ اپنی رہائی کے فورا بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دے رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے اپنے حق میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ کافی نہیں ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے اور جب وہ ان کو ایماندار تسلیم کرتے ہوئے مینڈیٹ دیں گے، تبھی وہ وزارت اعلی کی کرسی پر واپس آئیں گے۔ ان کی جگہ ان کی ایک وزیر اور قریبی ساتھی آتشی کو دہلی کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا ہے۔

یاد ریے کہ مودی سرکار کے مرکزی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے کیجروال پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے ریاست میں شراب کی فروخت بارے حکومت کی ایکسائز پالیسی میں تبدیلیاں کر کے سارے ٹھیکے جنوبی انڈیا کی بعض شراب کی کمپنیوں کو سستے داموں دیے جنکے عوض ان کمپنیوں نے انھیں مبینہ طور پر سو کروڑ روپے بطور رشوت دیے۔ ایجنسی نے الزام عائد کیا کہ یہ پیسہ چند سال پہلے گوا کے الیکشن میں انتخاب لڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس معاملے میں کیجروال کے نائب وزیر اعلی اور پارٹی ترجمان سمیت کئی بزنس مین اور دیگر لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ  مودی سرکار کی ایجنسیاں ڈیڑھ سال سے جاری تفتیش کے باوجود کیجروال اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پیسے کے لین دین کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکیں۔ اس معاملے میں ابھی تک ان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے۔ لیکن گرفتاری کا نقصان یہ ہوا کہ دہلی کی منتخب حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ بدعنوانی کے الزامات نے آپ کہلانے والی کیجر وال کی عام آدمی پارٹی اور اس کی حکومت کی مشکلات اور بڑھا دی تھیں۔

بھارتی دارالحکومت دہلی میں ماڈل گورننس سسٹم دے کر عام آدمی کے ہیرو بن کر مقبولیت اور شہرت حاصل کرنے والے کیجروال کی حکومت انڈیا کی واحد ایسی ریاست ہے جس کے سالانہ بجٹ میں بجٹ خسارے کی بجائے ہمیشہ سرپلس ہوا کرتا تھا۔ ان کی قیادت میں دہلی کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے کل بجٹ کا جتنا حصہ مختص کیا وہ شاید انڈیا کی کسی ریاست نے نہیں کیا ہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب انھیں وزیر اعظم مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔ ایسے میں بی جے پی ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خطرہ محسوس کرنے لگی تھی چنانچہ انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کروانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ وہ اگلے الیکشن کے وقت جیل میں ہوں اور ایسا ہی ہوا۔ کیجروال کو بھارتی سپریم کورٹ نے الیکشن کے دوران صرف ایک ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا تھا تاکہ وہ الیکشن مہم میں حصہ لے سکیں۔ کیجروال نے جیل میں بیٹھ کر الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں کرپشن کے کوئی ثبوت نہ ملنے کی بنا ہر ضمانت پر رہا کیا ہے تو انہوں نے بطور وزیراعلی استعفی دے کر دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر مجھے پیسے کمانے ہوتے تو انکم ٹیکس کمشنر کی نوکری بہت اچھی تھی۔ بہت پیسے کما سکتا تھا لیکن میرے اندر ملک کے لیے کچھ کرنے کی تمنا تھی اس لیے میں سیاست میں آیا ہوں۔‘

آئینی ترامیم کا پیکج: ناکامی کے ذمہ دار شہباز شریف کیوں ہیں  ؟

یاد ریے کہ عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھنے والے کیجروال سیاست میں آنے سے پہلے انکم ٹیکس کمشنر تھے۔ پھر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر انھوں نے دہلی کی غریب بستیوں میں دس برس تک رفاحی اور فلاحی کام کیا۔ کیجر وال کے بطور وزیراعلی استعفی دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرتے ہوئے ان کے بہت سے اختیارات محدود کر دیے تھے۔ سپریم کورٹ نے انھیں رہا کرتے ہوئے ایسی شرطیں رکھی ہیں جنکے تحت وہ وزیراعلیٰ کے طور پر کوئی ذمہ داری ادا نہیں کر پاتے

انھیں سرکاری کاغذات پر دستخط کرنے کی بھی ممانعت تھی۔ چنانچہ ان کے سامنے بہترین راستہ یہی تھا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ایک بار پھر عوام کے پاس جائیں اور ان کا مینڈیٹ حاصل کریں۔ بھارت میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اروند کیجریوال کی سیاست کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ خود کو ایک مظلوم کی طرح پیش کرتے ہیں اور یوں وہ عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ یہ ہے کہ دلی میں بی جے پی کے پاس کوئی ایسا مقامی رہنما موجود نہیں ہے جو کیجریوال کو چیلنج کر سکے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کیجروال کا ہدف دلی کے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی کو شکست دینا ہے لیکن لگتا ہے کہ بی جے پی ان کے استعفے کے اعلان کے لیے تیار نہیں تھی۔ یاد رہے کہ کیجریوال نے دلی میں بی جے پی کو تین بار شکست دی ہے اور اب ایک بار ہھر سیاسی شطرنج کی بساط بچھ گئی ہے۔ یہ کیجریوال کے لیے سیاسی اعتبار سے زندگی اور موت کی جنگ ہ کیونکہ دہلی میں ہارنا کیجریوال کے سیاسی مستقبل کو ختم کر سکتا ہے، لیکن کيجریوال کا کہنا ہے کہ جنگ بی جے پی نے شروع کی ہے لیکن اسے ختم دہلی کے عوام کریں گے۔

Back to top button