کیا روس کے بعد پاکستان بھی افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر لے گا ؟

روس کی جانب سے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے جانے کے بعد خطے میں نئی سفارتی صف بندی شروع ہو گئی ہے، روس کے بعد اب پاکستان نے بھی افغان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور افغانستان سے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت نے تمام محکموں کو افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے وہیں افغانی سفیر کی اسناد کو تسلیم کرنے پر بھی غور شروع کر دیا ہے تاہم مبصرین کے مطابق پاکستان اپنے اسٹریٹجک مفادات، بارڈر سیکیورٹی، اور خطے میں اثر و رسوخ کو مدِنظر رکھتے کوئی بھی اقدام فوری اٹھانے سے گریزاں ہے کیونکہ پاکستان کو افغانستان سے تعلقات کے استحکام میں مغربی دنیا کی ناراضگی، دہشت گردی کے خدشات اور داخلی سیاسی دباؤ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ روس کے بعد اگر پاکستان آگے بڑھتا ہے تو یہ صرف ایک سفارتی فیصلہ نہیں، بلکہ پورے خطے میں نئی صف بندی کا آغازثابت ہو گا تاہم پاکستان تنہا کوئی بھی ایسا رسک نہیں لے گا۔

مبصرین کے مطابق اس وقت چین، پاکستان، ایران، ازبکستان، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممکنہ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ ممالک افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 15 اگست 2021 میں افغان طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہت زیادہ خراب رہے لیکن اس کے باوجود اکتوبر 2021 میں افغان حکومت کا اسلام آباد میں سفارتخانہ کھولا گیا۔ تاہم افغانستان کی جانب سے دہشتگرد حملوں کی سہولت کاری کے الزامات پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے اور پھر ستمبر 2023 میں نگران حکومت نے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا تو اس پر بھی افغان طالبان حکومت کا شدید رد عمل آیا۔ لیکن اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور اس کے بعد 21 مئی کو بیجنگ میں پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد صورتحال میں خاصا بدلاؤ آیا۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں باقاعدہ سفیر تعینات کیے اور تجارتی معاہدے بھی کیے۔ جس کے بعد جہاں ایک طرف افغان طالبان نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو پٹہ ڈالا وہیں پر پاکستان میں جہاد کے نام پر دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے والوں کے طرز عمل کو خلاف شریعت قرار دیا۔ جس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات استحکام کی جانب گامزن ہیں

اسی دوران جہاں روس کے بعد پاکستان بھی افغانستان کو باقاعدہ تسلیم کرنے کے معاملے پر غور کر رہا ہے وہیں پاکستانی وزارت سیفران نے تمام محکموں کو افغان مہاجرین کے خلاف کارروائیاں روکنے کا نیا حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔وزارت سیفران کی جانب سے پاکستان میں آباد افغان شہریوں کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن یعنی پی او آر کارڈز میں توسیع زیرغور ہے۔ اس لئے پی او آر کارڈز کی مدت میں توسیع کےبارے میں حتمی فیصلہ ہونے تک افغان شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے اور انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔اس سلسلے میں وزارت داخلہ، چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

خیبر پختونخواہ سینٹ الیکشن : PTI کی 3 سیٹیں چھنے کا امکان

تاہم مبصرین کے مطابق پاکستان فوری طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا بلکہ اس حوالے سے چین اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو دیکھے گا اور اس کے مطابق ہی اپنی آئندہ کی حکمت عملی بنائے گا۔

پاکستان کے اقوام متحدہ میں سابق مستقل نمائندے اور امریکا میں سابق سفیر مسعود خان کا روس کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے کے اعلان کو خطے کیلئے اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ روس کے اس اقدام کی کئی دیگر ممالک بھی پیروی کریں گے خاص طور پر خطّے کے وہ ممالک جو اس حوالے سے جھجھک کا شکار تھے۔انہوں نے مزیدکہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر نمائندگی ملے گی اور اُس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے بھی راہ ہموار ہو گی۔ اس پیشرفت سے خطہ معاشی ترقی کرے گا اور سالوں سے رکے ہوئے کاسا ون اور ترکمانستان۔افغانستان۔پاکستان۔انڈیا (تاپی) جیسے اقتصادی منصوبے روبہ عمل آئیں گے اور سب سے اہم بات کہ مشترکہ کوششوں سے خطّے میں دہشت گردی کو بھی  ختم کیا جا سکے گا۔ ایمبیسیڈر مسعود خالد کے بقول ڈی فیکٹو طور پر تو چین اور ترکیہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے لیکن روس نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جو کہ ایک اہم بات ہے۔روس کے بعد دیگر ممالک بھی اس بارے پیشرفت کرنا چاہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں طالبان سے متعلق معاملات اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔ مسعود خالدکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے بھی افغان طالبان حکومت کے ساتھ ڈی فیکٹو تعلقات تو موجود ہیں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سفیربھی تعینات کر رکھے ہیں تاہم لگتا نہیں کہ پاکستان فوری طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا پاکستان اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ اتحادیوں اور دیگر اسلامی ممالک سے مشاورت کے بعد ہی کرے گا۔

Back to top button