5اگست کےبعدپی ٹی آئی کا14اگست کااحتجاج بھی وڑنے کاامکان

سانحہ 9 مئی کے فیصلوں نے پی ٹی آئی پنجاب کی سیاسی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی ہے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کو سنائی جانے والی سزاؤں کے بعد پی ٹی آئی ملکی سیاسی تقشے سے مائنس ہوتی نظر آتی ہے۔ عدالتی فیصلوں سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں جس کے بعد اب یوم آزادی پر تحریک انصاف کے احتجاج کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے

خیال رہے کہ سانحہ نومئی میں دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزاؤں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی ایک اور مقدمہ میں بھی بری ہو گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج منظر علی گل کی طرف سے جاری کیے جانے والے فیصلے کے مطابق سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ ، سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ، سابق وزیر بلدیات میاں محمود الرشید اور سینیٹر اعجاز چوہدری کو دس، دس برس اور پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ اور رہنما صنم جاوید کو پانچ، پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایک بار پھر کیس سے بری کر دیا گیا ہے جو اب تک مجموعی طور پر تین مقدمات میں بری ہو چکے ہیں۔ عدالت کی جانب سے یہ سزائیں دو الگ الگ مقدمات میں سنائی گئی ہیں جو تھانہ شادمان اور تھانہ سرور روڈ میں درج کیے گئے تھے۔ ان میں شادمان تھانے پر حملے، جلاؤ گھیراؤ اور تھانہ سرور روڈ لاہور چھاؤنی میں جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کے مقدمات شامل ہیں۔ عدالتی فیصلے نے صوبے میں پارٹی کی قیادت کا خلا مزید گہرا کر دیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں کو پہلی بار سزا سنائی گئی ہے، ان میں پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ اور صنم جاوید شامل ہیں، جنہوں نے پانچ اگست کو بھی پارٹی کی کال پر کچھ کارکنوں کے ساتھ لاہور میں احتجاج کیا تھا۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کو پہلے ہی اس سزا کا دھڑکا تھا اور ٹرائل ختم ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا تھا کہ اب شاید وہ لمبے عرصے کے لئے جیل جائیں گی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، عالیہ حمزہ کو خدشہ تھا کہ انہیں طویل عرصے کے لیے جیل جانا پڑ سکتا ہے، لیکن وہ ٹرائل کے دوران بھی احتجاجی حکمت عملی میں سرگرم رہیں۔ اس کے باوجود پارٹی کی بعض اعلیٰ قیادت نے ان کے احتجاجی پلان کو پسِ پشت ڈال کر متبادل اعلانات کیے، جس سے تنظیمی اختلافات کی جھلک نمایاں ہوئی۔

تاہم اب عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کو سز اسنائے جانے کے بعد نہ صرف پی ٹی آئی کی چودہ اگست کو احتجاج کی کال متاثر ہوئی ہے بلکہ کارکنوں کو سڑکوں پر لانے والی پارٹی قیادت بھی مفقود ہو گئی ہے۔ عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی سزا کے بعد پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت کا مکمل صفایا ہو گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف پنجاب کے اکثریتی رہنما یا تو پابند سلاسل ہیں یا مفرور ہیں ایسے میں عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کو دی جانے والی سزاؤں نے پی ٹی آئی کیلئے اٹھنے والی تمام آوازوں کو ہی خاموش کروا دیا ہے۔  تاہم پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عالیہ حمزہ کی گرفتاری کی بے صوبے میں پارٹی کی قیادت کون کرے گا اس ضمن میں حتمی فیصلہ بانی پی ٹی آئی کریں گے۔ دوسری جانب پنجاب میں صوبائی سطح پر تاحال کوئی ایسا رہنما سامنے نہیں لایا گیا جس کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہو کہ وہ پارٹی کی قیادت کر سکتا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی پنجاب کے بچے کھچے قائدین کو سزاؤں کے بعد چودہ اگست کو پارٹی کے اعلان کے مطابق کیا جانے والا احتجاج بھی ناممکن قرار دیا جارہا ہے کیونکہ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی پنجاب کی تمام قیادت سزا یافتہ ہو چکی ہے وہیں دوسری جانب پنجاب حکومت نے بھی احتجاج کے حوالے سے خبر دار کر دیا ہے کہ کہ اگر کسی نے 14 اگست کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو قانون حرکت میں آئے گا اور یوم آزادی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔کسی فسادی کو عوام کی خوشیوں کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق، پی ٹی آئی اس وقت "ڈبل فرنٹ” پر لڑ رہی ہے۔ایک طرف عدالتی محاذ پر مسلسل سزاؤں کا سامنا کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف 14 اگست کے روز احتجاج کی کال جیسے اقدامات کے ذریعےعوامی حمایت کو متحرک رکھنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔تاہم پی ٹی آئی کو عدالتی و عوامی محاذ پر مکمل ناکامی کا سامنا ہے۔ عدالتی سزاؤں کی وجہ سے پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی طور پر اہم صوبے میں قیادت کا بحران پیدا ہو گیا ہے جس نے پارٹی کی تنظیمی گرفت ڈھیلی کر دی ہے۔ ایسے میں یوم آزادی پر پی ٹی آئی کا احتجاج نہ صرف سیاسی خطرہ بلکہ عوامی ہمدردی کھونے کا بھیسبب بن سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی موجودہ حکمتِ عملی سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی پنجاب میں اپنی صفوں کو منظم کرنے کے بجائے، سیاسی چالوں اور ٹکراؤ کی پالیسی پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ تاہم قیادت کا فقدان اور احتجاج کی متنازعہ ٹائمنگ، دونوں مل کر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیاپی ٹی آئی اپنی جارحانہ حکمت عملی سے پارٹی کیلئے عوامی حمایت بڑھا رہی ہے یا اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

Back to top button