کوئی پوچھے تو کہنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیا تھا
تحریر:C
پنجاب اسمبلی ٹوٹنے سے بہت پہلے کی بات ہے کہ شوکت ترین کی دو فون کالز پکڑی گئی تھیں جس میں موصوف بہت خوشی سے اپنے لیڈر کے کہنے پر خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کی ڈیل کے خلاف اقدامات کا مشورہ دے رہے تھے۔ جس سے ظاہر تھا اس لیڈر کو نہ ملک کی پرواہ ہے نہ غریب آدمی کی۔ اس کے سر پر صرف اقتدار کے ہوس چھائی ہوئی ہے۔ وہ ہر ایسا اقدام کرنے پر تیار ہے جو موجودہ حکومت کے علاوہ اس ملک کو بھی نقصان پہنچائے۔ بقول ان کے چاہے اس ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں چاہے اس ملک پر ایٹم بم گر جائیں چاہے غریب کا بھرکس نکل جائے بس کسی طرح یہ حکومت عوام کو کوئی فلاح دینے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اب جو صورت حال پنجاب میں بنی ہے وہ بھی اسی بات کا شاخسانہ ہے
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ جنیوا میں ایک ڈونر کانفرنس ہوئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے نہایت دلسوزی سے پاکستان کے آلام کا نوحہ پڑھا۔ دنیا کو یہ باور کروایا کہ جو آلودگی پاکستانیوں کی جان کا عذاب بنی ہوئی ہے اس میں پاکستانیوں کا قصور رتی بھر ہے۔ یہ دنیا کا کیا دھرا ہے جس کی ماحولیاتی سزا پاکستان کو مل رہی ہے۔ اس موقعے پر شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے نہایت مدبرانہ طریقے سے دنیا کے سامنے پاکستان کا کیس رکھا۔
تیاری اچھی تھی۔ دلائل مکمل تھے۔ ہوم ورک کیا ہوا تھا جس کے نتیجے میں دنیا کے مخیر ممالک کا دل پسیجا۔ انہوں نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ گیارہ ارب کے قریب امداد اکٹھی ہوئی۔ جو پاکستان کی صورت حال میں رحمت خداوندی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس وقت جب دنیا موجودہ حکومت پر اعتبار کر رہی ہے اعتماد کا اظہار کر رہی ہے اس لمحے پاکستان میں موجود ایک شرپسند لیڈر کو یہ خیال آیا کہ اگر دنیا نے اس بحران میں پاکستان کی مدد کر دی تو اس کی تو سیاست ختم ہو جائے گی۔ اس کی پھیلائی نفرت کی دیوار ڈھے جائے گی۔ تو اس موقعے پر دنیا کی مدد کو، اس حکومت کے کارنامے کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ لاہور کے زمان پارک میں بنایا گیا۔ اچانک نفرت اور غلاظت کے گٹر ابلنا شروع ہو گئے۔ اور پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی کو خاک میں ملانے کا منصوبہ بنا لیا گیا۔
پہلے تو امداد لینے والوں کو بھکاری کہہ کر ان کی تضحیک کی گئی۔ ان کے خلاف نفرت پر لوگوں کو اکسایا گیا۔ بتایا گیا کہ شہباز شریف کس طرح بھیک مانگنے کا عادی ہے۔ کس طرح وطن کے ناموس کو مٹی میں ملا رہا ہے۔ دنیا کے سامنے جھولی پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے نہ اس لیڈر کو اور نہ ان کے حواریوں کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ یاد آیا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں سعودی عرب کے صرف زکوۃ اور فطرانے کے چاول اور کھجور دیے اور یہ فخر سے وہ بھیک کی بوریاں سمیٹے وطن میں واپس آ گئے۔
اس شرپسند لیڈر نے ساری عمر جھولی پھیلائی کبھی کینسر ہسپتال کے نام پر کبھی یونیورسٹی کے نام پر۔ اب یہ کہانیاں زباں زد عام ہیں کہ اس زکوۃ اور فطرانے کی رقم میں بھی اس لیڈر کی پوری فیملی نے لوٹ مار کی۔ بہنیں ہیں تو مبینہ طور پر ارب پتی ہو گئی ہیں۔ خود غریبوں کے نام پر دس دس روپے مانگنے والے ہیں تو تین سو کنال کے قصر میں براجمان ہیں۔ ورلڈ کپ کے بعد ایک دھیلہ نہیں کمایا اور آج بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس دیکھ لیں یہ سب اللے تلے یہ سب صدقے اور زکات کی رقومات کا کمال ہے۔
کوئی ان سے یہ سوال پوچھے کہ اگر وہ اپنے کینسر ہسپتال اور یونیورسٹی کے لیے بھیک مانگ سکتے ہیں تو وطن کے بے کسوں کی خاطر، سیلاب میں ڈوبے لاکھوں لوگوں کی خاطر دست سوال دراز کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ تو سعادت کی بات ہے کہ دنیا سے اپنی عوام کے لیے امداد طلب کرنا۔ دنیا کے کسی اور ملک میں یہ عذاب آیا ہوتا تو وہاں کا اپوزیشن لیڈر چاہے جو بھی کرتا کبھی ملک میں آنے والی امداد کو بھیک نہ کہتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہوتا کہ اس سے تو فائدہ ملک کا ہی ہے۔ لیکن بات بڑی واضح ہو گئی ہے ان صاحب کو ملک کا فائدہ عزیز نہیں بس ذاتی مفاد، ذاتی اقتدار مطمح نظر ہے
اس المیے کا دوسرا پہلو یہ کہ اب جب کہ دنیا کی مدد اور اعتبار پاکستان کو حاصل ہو گیا ہے تو یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اب عام آدمی کی حالت بہتر ہو گی، خزانے میں کچھ رقم جمع ہو گی جس سے دوسرے ممالک اور مالیاتی اداروں کو پاکستان کی اہمیت اور افادیت سمجھ آئے گی اور خزانہ کچھ وقت کے لیے سہی مگر سنہرا ہو جائے گا۔ یہ پاکستان کی اور موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہو گی۔ بس یہی بات اس لیڈر کو ناگوار گزری۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اسی بات کا شاخسانہ ہے۔
وفاقی حکومت کی کامیابی کا بدلہ ان صاحب نے پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام سے فوری لیا۔ اس اسمبلی کی تحلیل کا واحد مقصد دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ جس ملک کو تم پرامن سمجھتے وہاں ابھی ایک فتنہ بیٹھا ہے جو چاہے تو ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دے، چاہے تو شہر شہر میں آگ لگا دے، چاہے تو آئین پاکستان کی درگت بنا دے، چاہے تو ہر قانون کو پاؤں تلے روند دے۔ اور جب تک وہ زندہ نہ اس ملک میں امن کی بات ہو گی نہ نفرت کی مناہی ہو گی بلکہ شرر کی کیفیت اور بڑھے گی۔ بدامنی اپنے عروج تک پہنچے گی۔ لاقانونیت کو ایک جماعت کی سر پرستی حاصل ہو گی۔ یہ پیغام اس لیڈر نے پنجاب اسمبلی تحلیل کروا کر دنیا کو دیا۔ یہ سب اس وقت میں کیا گیا جب دنیا ہماری مدد کو تیار ہے۔ جب دنیا کو کچھ کچھ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ اب اس ملک میں طالبان کے ہمدرد ختم ہونے والے ہیں۔ ایسی جمہوری حکومت قائم ہو چکی ہے جو جمہوری اقدار کو آگے لے کر بڑھے گی۔
اس فتنہ پسند لیڈر نے ڈونر کانفرنس کے دودھ میں مینگنیاں ڈالنے میں دیر نہیں کی۔ ایک ہی ہلے میں بستے چمن کو اجاڑنے کی کوشش کی ہے۔شہباز شریف حکومت کا مقابلہ دو عفریتوں سے ہے۔ ایک عفریت اس فتنے کے دور کے قرضے اور بدحالی ہے اور دوسرا عفریت اس فتنے کا بدامنی پھیلانے کا منصوبہ ہے۔ قارئین کو بس یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے جب بھی اس ملک کی حالت بہتر ہونے لگے گی، جب بھی غربت کم کرنے کے اقدامات ہونے لگیں تو ایک شخص بدامنی پھیلانے کے لیے سامنے ضرور آئے گا اور سب کچھ تلپٹ کر کے چلا جائے گا اس شخص کا نام بتانے کی ضرورت نہیں سب کو پتہ ہے جب نفرت بدامنی بڑھے گی تو کوئی پوچھے تو بتانا کہ عمران خان آیا تھا۔
چین:ایک ماہ کے دوان کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 60 ہزار ہوگئی