کیا واقعی پاکستان میں بجٹ کے بعد گاڑیاں سستی ہونےوالی ہیں؟

آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ میں درآمدی وہیکلز پر عائد ڈیوٹی کم کرنے کے دباؤکے بعد عوام نے جولائی سے ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی امیدیں لگا لی ہیں۔ تاہم معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق گاڑیوں کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کرنے سے امپورٹڈ گاڑیاں تو سستی نہیں ہونگی تاہم پاکستان میں تھوڑی بہت چلنے والی آٹو انڈسٹری ضرور تباہ ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ آئندہ بجٹ میں گاڑیوں پر درآمدی ٹیرف میں کمی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو ممکن بنانے کی آئی ایم ایف کی تجاویز نے آٹو سیکٹر میں ہلچل مچا دی ہے۔تاہم حالیہ حکومتی پالیسیوں، بین الاقوامی دباؤ اور صنعتی مفادات کے درمیان کشمکش کے باعث یہ خواب ایک پیچیدہ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف پاکستان پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ وہ درآمدی پابندیاں نرم کرے تاکہ مارکیٹ میں مقابلہ بڑھے، گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آئے اور صارفین کو براہ راست فائدہ پہنچے۔ آئی ایم ایف کی تجویز کے بعد حکومت آئندہ پانچ سال میں مکمل تیار شدہ گاڑیوں یعنی سی بی یوز پر درآمدی ڈیوٹی 15 فیصد تک کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔حکام کے مطابق اس فیصلے سے درمیانے اور نچلے طبقے کے صارفین کو گاڑیوں کی خریداری میں آسانی ہو گی۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی درآمدی ڈیوٹی میں کمی سے عوام کو گاڑیاں سستی ملیں گی؟ کیا واقعی آمدہ بجٹ کے بعد پاکستان میں گاڑیاں سستی ہونے والی ہیں؟
اس حوالے سے لکی موٹر کارپوریشن کے چیئرمین محمد علی ٹبہ نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ سی کے ڈی اور سی بی یو یعنی مکمل اور نیم تیار شدہ گاڑیوں کے درمیان ڈیوٹی کا فرق اگر ختم کیا گیا تو مقامی صنعت تباہ ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’2016 سے 2021 تک کی آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت کورین، یورپی اور چینی کمپنیوں نے پاکستان میں 1.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار پیدا ہوا بلکہ صارفین کو زیادہ آپشنز بھی ملے۔‘محمد علی ٹبہ نے کہا ’یہ سچ ہے کہ قیمتوں میں مقابلہ ہونا چاہیے، لیکن اگر مقابلہ سبسڈی یافتہ درآمدات سے ہو تو اس کا مطلب مقامی صنعت کو ختم کرنا ہے۔‘
دوسری جانب آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق ’ایس یو ویز اور مہنگی گاڑیاں تیار کرنے والی نئی کمپنیاں زیادہ ترپرزے بیرون ملک سے منگوا رہی ہیں اور مقامی طور پر کچھ بھی تیار نہیں کر رہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’نئی کمپنیاں صرف حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات سےفائدہ اٹھا رہی ہیں، جب کہ سپیئر پارٹس تیار کرنے والی مقامی کمپنیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔انھوں نےخبردار کیا کہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ پالیسی اگر حفاظتی اقدامات کے بغیر لاگو کی گئی تو پاکستان کی 30 سال پرانی سپیئر پارٹس کی صنعت بالکل ختم ہو جائے گی۔
تاہم آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کا مؤقف حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ ایچ ایم شہزاد کے مطابق’استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم ہونے سے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچے گا۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ ’آج کل 660 سی سی کی گاڑی بھی 30 لاکھ روپے میں مل رہی ہے۔ متوسط طبقے کے پاس نہ نئی گاڑی لینے کی سکت ہے، نہ بینک فنانسنگ کی موثر سہولت موجود ہے۔ ایسے میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد ہی سستی گاڑی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا واحد راستہ رہ جاتی ہے۔‘
اس حوالے سے صنعتی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی گئی تو پاکستان ایک ’جنک یارڈ‘ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایسی گاڑیاں جو یورپ یا جاپان میں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں، وہ یہاں سستے داموں بیچی جائیں گی اور اس کے بعد ان کی دیکھ بھال اور پرزہ جات کی کمی نئے مسائل پیدا کرے گی۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس پالیسی کا قلیل مدتی فائدہ ہو گا، مگر طویل مدتی نقصان بہت زیادہ ہو گا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آٹو پارٹس بنانے والی فیکٹریاں پہلے ہی شدید دباؤ میں ہیں۔ مہنگا خام مال، بجلی و گیس کی زیادہ قیمتیں، کرنسی کی گراوٹ اور مقامی مانگ میں کمی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ اب اگر گاڑیوں کی درآمدات پر سبسڈی دے دی گئی تو یہ سیکٹر مکمل طور پر وڑ جائے گا۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی صارفین گاڑی کی خریداری کے وقت قیمت، ایندھن کی بچت اور مرمت میں آسانی کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ مگر مارکیٹ میں نئی گاڑی کی قیمت 30 لاکھ سے شروع ہو کر 1 کروڑ سے اوپر تک جا چکی ہے۔ ایسے میں عوام کی امیدیں حکومت کی ان اصلاحات سے جڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد قیمتوں کو کنٹرول کرنا اور مقابلہ بڑھانا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصلاحات عوام کے لیے ہوں گی یا صرف درآمدی مافیا اور کچھ غیرملکی کمپنیاں ہی اس سے فائدہ اٹھائیں گی؟ ماہرین کے مطابق گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہر پاکستانی کا خواب ہے۔ مگر یہ خواب تب ہی پورا ہو گا جب حکومت ایسی درآمدی اور صنعتی پالیسی اپنائے جو نہ صرف صارف کو فائدہ دے بلکہ مقامی صنعت کو بھی مستحکم رکھے۔