پاکستان کے مالیاتی نظام میں 375 ٹریلین کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ، آڈیٹر جنرل رپورٹ

وفاقی حکومت کے مالی معاملات پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان (AGP) کی تازہ رپورٹ نے ہلچل مچا دی ہے، جس میں سامنے آنے والے حیران کن اعداد و شمار نے نہ صرف حکومتی مالی شفافیت بلکہ آڈٹ اور حساب کتاب کے پورے نظام پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

پاکستان کی مالی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب 375 ٹریلین روپے (یعنی 3 لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی مبینہ بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے—یہ ایک ایسا ہندسہ ہے جو نہ صرف پاکستان کی جی ڈی پی (110 ٹریلین روپے) بلکہ وفاقی بجٹ 2023-24 (14.5 ٹریلین روپے) سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بجٹ ہی ساڑھے 14 کھرب کا تھا تو یہ بے ضابطگیاں اس سے 27 گنا کیسے بڑھ گئیں؟

رپورٹ میں پیش کی گئی تفصیلات مزید حیران کن ہیں ، 284.17 ٹریلین روپے خریداری میں بے ضابطگیوں کے زمرے میں،85.6 ٹریلین روپے ناقص، تاخیر زدہ یا نامکمل سول ورک میں،2.5 ٹریلین روپے واجبات اور واجب الادا رقوم میں،1.2 ٹریلین روپے گردشی قرضوں (سرکلر ڈیٹ) میں پھنسا ہوا دکھایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اربوں روپے کے نقصانات کی نشاندہی انٹرنل کنٹرول کی کمزوری، اثاثہ جات کے ناقص انتظام، معاہدوں کے غلط استعمال اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کی مد میں کی گئی ہے۔

دستاویزات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان بیک وقت کئی ممالک کے مالیاتی نظام چلا رہا ہو۔ مگر حقیقت میں یہ اعداد یا تو کسی تباہ کن حسابی غلطی کی نشان دہی کرتے ہیں، یا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملکی مالیاتی نگرانی اور آڈٹ نظام مکمل طور پر اعتماد کھو چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق ایپروپری ایشن اکاؤنٹس میں 40.3 ٹریلین روپے کی منظوری دی گئی جبکہ اصل اخراجات 39.9 ٹریلین روپے رہے—یعنی صرف 370 ارب روپے کا فرق۔ پھر سوال یہ ہے کہ 375 ٹریلین روپے کی بے قاعدگیاں کہاں سے آئیں؟

رپورٹ نے جوابات سے زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے:

کیا یہ ضرب (multiplication) کی تکنیکی غلطی ہے؟

کیا کئی برسوں کے اعداد و شمار کو ایک سال میں جوڑ دیا گیا؟

یا یہ پاکستان کے زوال پذیر مالیاتی ریکارڈنگ سسٹم کا عملی مظہر ہے؟

اس بابت جب آڈیٹر جنرل کے دفتر کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ایک ماہر کی تحریر کردہ آواز کا نوٹ شیئر کیا، جس سے ظاہر ہوا کہ ادارے کو خود ان اعداد و شمار پر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔

ترجمان کے مطابق، "مالی بے قاعدگیاں، خرد برد، الاٹمنٹ سے تجاوز یا اصولوں کی خلاف ورزی بعض اوقات اصل بجٹ سے بھی زیادہ ہو جاتی ہیں”—البتہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ اعداد و شمار 375 ٹریلین روپے تک کیسے پہنچے۔

یہ تمام ڈیٹا آڈٹ سال 2024-25 کی رپورٹ میں شامل ہے، جسے صدرِ پاکستان نے باقاعدہ منظور کر لیا ہے اور اب اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

Back to top button