مرنے سے پہلےمشرف نے صدربننےکواپنی سب سے بڑی غلطی بتایاتھا

چوتھے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے بیٹے بلال مشرف نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل مشرف نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کر لیا تھا کہ 2002 میں ان کا ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ غلط تھا۔ جس کا انھیں بعد میں بڑا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ بلال مشرف کے مطابق ان کے والد جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں ریفرنڈم کروا کی بہت بڑی غلطی کی تھی جس سے نہ صرف ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی تھیں بلکہ ان کی ساکھ کے بحران میں بھی اضافہ ہوا تھا۔
خیال رہے کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو بھی ہٹاکر خود کو چیف ایگزیکٹو قرار دے دیا تھا۔بعد ازاں 2001 میں وہ باوردی ملک کے پہلے صدر بھی بنے اور انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا اور متعدد بار بطور صدر خود ہی اپنی آرمی چیف کی مدت میں خود کو توسیع دیتے رہے۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے 30 اپریل 2002 کو عوامی ریفرنڈم کروایا جس میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ وہ انہیں آئندہ پانچ سال تک بطور صدر دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مذکورہ ریفرنڈم پر اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا لیکن اس کے باوجود ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی جانب سے ریفرنڈم کرایا گیا اور نتائج میں دعویٰ کیا گیا کہ 97 فیصد ووٹرز نے پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال تک بطور صدر منتخب کرلیا۔مذکورہ ریفرنڈم میں 18 سال سے زائد العمر ہر شخص کو رائے دینے کا حق دیا گیا تھا اور شناختی کارڈ دکھانے کی شرط بھی نہیں تھی۔ جس پر اس وقت کی سیاسی جماعتوں نے بھی نہ صرف مشرف کو سخت نقید کا نشانہ بنایا بلکہ صدائے احتجاج بھی بلند کی۔
تاہم اب ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے بیٹے بلال مشرف نے بھی جنرل مشرف کی جانب سے 30 اپریل 2002 کو کرائے گئے ریفرنڈم کو والد کا سب سے غلط فیصلہ قرار دے دیا ہے۔ بلال مشرف کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے 1999 میں حکومت سنبھالی اور 2001 تک بہترین انداز میں حکومت چلائی لیکن 2002 میں انہوں نے ریفرنڈم کرایا جو کہ ایک بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔بلال مشرف نے کہا کہ ان کے خیال میں ریفرنڈم کروانا ملک سمیت والد کے لیے بھی غلط ثابت ہوا، اس سے اچھا تھا کہ انتخابات کروائے جاتے یا پھر جس طرح حکومت کرتے آ رہے تھے، ویسے ہی حکومت کرتے آتے لیکن ریفرنڈم نہ کرواتے۔ان کے مطابق ریفرنڈم میں پوچھے جانے والے سوال تک بھی مناسب نہیں تھے اور ان کا ذاتی خیال ہے کہ ریفرنڈم کروانا والد کا سب سے غلط فیصلہ تھا جو انہیں پسند نہیں تھا۔ جس کا انھوں نے اپنے والد کے سامنے کھل کر اظہار بھی کیا۔
بلال مشرف نے اپنے والدجنرل پرویز مشرف کے آخری ایام سمیت ان کی سیاست اور فوجی سروس پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دادا قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئے، وہ پہلے سے ہی سرکاری ملازم تھے، اس لیے انہیں کراچی میں سرکاری رہائش گاہ ملی۔ ان کے مطابق ان کے دادا کلرک تھے، انہیں جیکب لائن میں ایک کوارٹر ملا، جہاں ان کے خاندان نے ابتدائی سال گزارے، پھر ان کے خاندان نے ناظم آباد میں گھر بنایا، پھر دوسری جگہوں پر بھی گھر بنے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی دادی نے بھی قیام پاکستان کے بعد کسٹم سروسز میں ملازمت کی جب کہ دادا ترکیہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے میں بطور کلرک تعینات ہوئے جس کے بعد ان کے خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوئے۔
بلال مشرف نے والد جنرل مشرف کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد نے انقرہ میں تعلیم حاصل کرنے سمیت ایف سی کالج لاہور اور دیگر اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی۔بلال مشرف کا کہنا تھا کہ ان کے والد اچھے، شفیق اور سخت مزاج تھے، غلطی کرنے پر انہیں اس طرح سمجھاتے کہ وہ دوبارہ کبھی غلط نہ کرتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ زندگی کے آخری ایام میں وہ والد کے قریب رہے، انہوں نے والد سے معافیاں بھی مانگیں اور والد نے بھی انہیں معاف کیا، ان کے درمیان کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی لیکن شکوے تھے جو والد کے آخری ایام میں دور ہوئے۔
ایک سوال کے جواب میں بلال مشرف کا کہنا تھا کہ دبئی میں ان کے والد اور بولی وڈ اداکار سنجے دت کی متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں، دونوں ایک ہی سینٹر میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے، دونوں کے درمیان اچھے دوستانہ روابط تھے۔ایک سوال کے جواب میں بلال مشرف نے بتایا کہ انہیں والد کی جانب سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے قیام کا فیصلہ سب سے اچھی بات اور اچھا کام لگتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ والد کی جانب سے نادرا کے قیام کے بعد ہی پاکستانی عوام کے قانونی دستاویزات کو مناسب انداز میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج نادرا کا کردار انتہائی اہم بن چکا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ والد کی شخصیت سے بالکل مختلف ہیں، ان کا سیاست اور فوج سے کبھی لگاؤ نہیں رہا، ان کا رجحان تعلیم کی طرف ہے۔