حکومت نے انسانی جان لینے کی قیمت 98 لاکھ مقرر کر دی

شہباز شریف کی حکومت نے انسانی زندگی کی قیمت 98 لاکھ روپے مقرر کر دی ہے جس کے بعد اب کوئی بھی شخص اپنے مخالف کو قتل کرنے کے بعد دیت یعنی خون بہا کے 98 لاکھ روپے ادا کر کے سزا سے بچ سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ دیت کی رقم 98 لاکھ 28 ہزار 670 روپے ہو گی جو 30 ہزار 630 گرام چاندی کے مساوی بنتی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس یہ رقم 81 لاکھ تین ہزار955 روپے تھی یعنی اس برس اس میں 17 لاکھ روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔

پاکستانی قانون میں قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن اگر مدعی چاہے تو ملزمان سے دیت کی رقم لے کر یا اس کے بغیر بھی معاف کر سکتا ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے مقدمات میں صلح کی راہ موجود نہیں کیونکہ ان دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔

پاکستان میں دیت کے قانون کے مطابق قتل جیسے سنگین جرم میں بھی مقتول کے خاندان کے پاس ملزمان کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ انھیں صرف عدالت میں اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ’ہم انھیں خدا کے لیے معاف کرتے ہیں۔‘ قانونی ماہرین کے مطابق اس ’معافی‘ کا بنیادی مقصد مالی مفاد ہوتا ہے اور متاثرین کو غیر رسمی طریقے سے رقم کی ادائیگی کسی طرح بھی غیر قانونی نہیں۔ جسمانی تشدد کے جرائم کی صورت میں ’تصفیہ‘ یا ’معافی‘ کی دفعات پہلی مرتبہ 1990 کی دہائی میں اسلام سے متاثر قانونی اصلاحات کے طور پر متعارف کروائی گئیں تھی۔ اس نظام کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام پر کافی بوجھ ہے۔ ان دفعات سے نہ صرف نظام پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے فسادات بڑھنے کے امکان بھی کم ہو جاتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق 1990 میں قتل کے مقدمات میں سزا ملنے کی شرح 29 فیصد تھی تاہم ان قوانین کے آنے سے یہ کم ہو کر 2000 میں صرف 12 فیصد رہ گئی تھی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس قانون سے بار بار جرم کرنے والوں کو ایک طرح کا استثنیٰ مل جاتا ہے اور یہ طاقتور افراد کے لیے انصاف سے بچنے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے بتایا کہ دیت کی رقم کا تعین چاندی کے نرخ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ انکے مطابق چونکہ دوسری چیزوں کی طرح ہر برس چاندی کے نرخ بھی تبدیل ہوتے ہیں، اس وجہ سے یہ رقم بھی ہر سال بڑھا دی جاتی ہے۔

خالد رانجھا کے مطابق حکومت دیت کی رقم کے تعین کے لیے پہلے چاندی کے نرخ کو دیکھتی ہے اور پھر اسے مساوی طور پر روپے میں مقرر کر دیتی ہے۔

اس قانون کے غلط استعمال بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام انصاف پر منحصر ہے کہ وہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکے اور اس میں دباؤ یا دھونس کے پہلو کو نہ آنے دے۔

خالد رانجھا کی رائے میں یہ دیت کا قانون اسلام سے بھی پہلے سے چلا آ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اسے کسٹمری اور سول لا کی کیٹگیری میں رکھا گیا ہے۔ مذہبی سکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ دیت کا قانون قرآن سے بھی پہلے عرب قبائل میں رائج تھا۔ ان کی رائے میں پاکستان میں صرف عربی سے انگریزی میں ترجمہ کر کے شامل کر دیا گیا جبکہ اس کی روح کو سمجھا ہی نہیں گیا۔

ان کے مطابق جب پیسے کے زور پر کسی کو عدالت سے معافی مل جاتی ہے تو اس سے سماجی اور معاشرتی تفریق مزید بڑھ جاتی ہے اور کامن لا والے ججز جرم کی نوعیت کو دیکھے بغیر ترجمہ کیے گئے قانون کی طرف آ جاتے ہیں کہ چلیں جی اب تو خاندانوں میں صلح ہو گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ جہاں قرآن میں احکامات درج ہیں وہیں ہزاروں فقہ موجود ہیں اور اس پر بہت تحقیق کی گئی ہے کہ کیسے کسی حکم پر عمل پیرا ہونا ہے جبکہ پاکستان میں اس طرح کی تحقیق نہیں کی گئی، جس سے ہمیں اس قانون کے مرضی کے استعمال کے پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے وابستہ محقق مجتبی راٹھور نے بتایا کہ جب تک ورثا راضی نہ ہوں، دیت کا آپشن لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق اگر ورثا دیت وصول بھی کر لیں تو عدالت کسی عادی مجرم یا مقدے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تعزیری سزائیں دے سکتی ہے تاکہ عادی مجرم اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ جب 1990 میں دیت اور قصاص کے قوانین لائے گئے تو ان کا مقصد متاثرین کی بھلائی اور فلاح کے پہلو کو سامنے رکھنا تھا۔ ان کے مطابق اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کےبجائے کمزور فریق کے ساتھ کھڑی ہو جس کی داد رسی اگر کوئی اور نہ بھی کرے تو پھر اس کا خدا کے بعد سہارا تو ریاست ہی ہوتی ہے۔

Back to top button