چیف جسٹس ججوں کی تقرری میں من مانی نہیں کر سکتے

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کی جونیئر عائشہ ملک کو سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں ترقی دینے کی کوشش ایک مرتبہ پھر ناکامی کا شکار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس کی ایسی ایک کوشش ستمبر 2021 میں چار چار ووٹوں سے ٹائی ہوچکی ہے۔ لیکن اب جسٹس گلزار نے 6 جنوری کو جوڈیشل کونسل آف پاکستان کا اجلاس دوبارہ طلب کر رکھا ہے جس کے ایجنڈے پر جائز جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کا معاملہ رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس کوشش کے خلاف 6 جنوری کو عدالتی بائیکاٹ اور احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔

لیکن اب اس معاملے میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ایک سینئر رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس گلزار احمد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلے سپریم کورٹ میں تقرریوں کے لیے ججوں کی نامزدگی کا معیار طے کریں اور پھر 6 جنوری کو ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک کی ترقی پر غور کریں۔

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت سمجھے جانے والے تے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے طے شدہ اجلاس سے قبل چیف جسٹس کو دو صفحات پر مشتمل خط لکھ کر کہا ہے کہ ‘ایک بار نامزدگی اور انتخاب کے معیار کا تعین ہو جانے کے بعد اس سے ان بدگمانیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی کہ ججوں کے انتخاب کے عمل میں من مانیاں اثر انداز ہو رہی ہیں۔
اس سے پہلے 3 جنوری کو پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز کے ایک نمائندہ اجلاس نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ جوڈیشل کونسل آف پاکستان یا جے سی پی کا 6 جنوری کا اجلاس ملتوی کر دیا جائے، جس میں ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود عائشہ ملک کو ترقی دینے پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے جے سی پی کے 9 ستمبر کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے تھے جس میں کمیشن کے کل آٹھ میں سے چار اراکین جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود، سابق جج دوست محمد خان اور پی بی سی کے نمائندے اختر حسین نے جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کے خیال کی مخالفت کی تھی۔ تاہم چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس عمر عطا بندیال، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جسٹس عائشہ ملک کی حمایت کی۔ اس صورتحال سے صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ حکومت بھی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں ترقی دلوانا چاہتی ہے اور چیف جسٹس گلزار شاید حکومتی ایجنڈے پر ہی چلتے ہوئے سنیارٹی کے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس پیشرفت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اہنے خط میں آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) پر روشنی ڈالی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے سی پی کو سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے چاہیے۔ خط میں زور دیا گیا کہ طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کے لیے کمیشن کو آئین کے حکم سے باہر کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز 2010 کے رول 3 کا مطلب صرف یہ تھا کہ نامزد افراد کو متعلقہ چیف جسٹس کے ذریعے آگے بڑھایا جائے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اکیلے چیف جسٹس ہی نامزدگی کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے بکلہ، ڈیرہ اسمعیل خان موٹر وے منصوبے کا فتتاح کر دیا

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خط میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کمیشن نامزدگی اور انتخاب کے عمل کو شامل اور شفاف بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی بجائے انہیں کم کیا جا سکے۔ خط میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 175اے (2) کے مطابق چیف جسٹس کمیشن کے چیئرمین ہوں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ انہیں کسی کو تنہا نامزد کرنے کا اختیار نہیں دیتا، اس میں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ کمیشن صرف چیف جسٹس کے نامزد کردہ پر غور کر سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے نامزدگی کے بارے میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں، اس لیے سب سے پہلے انتخاب کے معیار کا تعین کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ میرٹ بمقابلہ سنیارٹی دلیل دیتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر دونوں باہمی طور پر خصوصی ہیں، اور بغیر کسی بنیاد کے علاقائی، نسلی، مذہبی یا صنفی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے مثبت کارروائی کی ضرورت ہو تو جے سی پی کو پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا یہ آئین کے تحت جائز ہے یا نہیں۔

پشاور ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس عیسیٰ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے صرف دو ہفتے قبل ہائی کورٹ کے ججز کے طور پر تقرری کے لیے 6 نامزد افراد کی تجویز دی گئی تھی۔

جسٹس عیسی کا کہنا یے کہ اگر وکلاء اور ججوں کے خدشات کو بغیر کوئی جواب دیے نظر انداز کر دیا گیا تو عوام کا اعلی عدلیہ پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ انکا کہنا ہے کہ من مانی کے فیصلوں نے عدلیہ کی ساکھ کو پہلے ہی سخت نقصان پہنچایا ہے اس لیے نامزد افراد پر غور کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ جے سی پی اس معیار کا تعین کرے جس کے خلاف نامزد افراد پر غور کیا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے معیار کو آئندہ جے سی پی کے اجلاس کے لیے ایجنڈا بنایا جانا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس گلزار ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا اپنی من مانی جاری رکھتے ہیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!